︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗
مدارس اسلامیہ کا عروج وزوال
︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘︘
بر صغیر میں مدارس اسلامیہ نے اسلام کی خدمت اور انسانوں کی صحیح رہنمائی کرنے میں اہم کردار ادکیا ہے۔اور شریعتِ محمد یہ کے مد مقابل فاسد خیالات اور شیطانی افکارات سے رونما ہونے والے ہر انقلاب و طوفان کو اسلام کی مضبوط چٹان سے ٹکرا کر چکنا چور کیا ہے۔ اور دین حنیف کو منھ دکھانے والی ہر ضلالت و گمراہی و تاریکی کا سینہ چاک کر کے اسلام کے منور چراغوں سے ضیاء پاش کیا ہے۔
علماء کرام، عوام کی جان، دین، اور ایمان کے محافظ ہیں اوران کی فکری آبیاری کے ایسے سمندر ہیں جس سے عوام اپنی ضرورت کے مطابق سیرابی حاصل کرتی ہیں۔ عوام کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ ان کے دامن سے وابستہ ہوجائیں۔ ورنہ بھیڑیے ان کاشکار کر لیں گے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ جن بھولے بھالے مسلمانوں کا تعلق علما سے نہیں ہوتا باطل فرقے اور طاقتیں ان کا شکار بڑی آسانی سے کر لیتی ہیں۔
دشمن اسلام
دشمن اسلام کی آنکھ میں مدارس اسلامیہ روز اول ہی سے خار کی طرح چبھ رہے ہیں کیوں کہ ان کو اس بات کا پورا اندازہ ہے کہ جب تک مدارس اسلامیہ مسلمانوں کی رہنمائی کے فرائض انجام دیتے رہے گے اس وقت تک ہم اپنے ناپاک مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
اٹھارویں صدی میں انگریزیو نے بڑی سوچی سمجھی سازش کے تحت مدارس کو دینی اور دنیاوی تعلیم میں بانٹ کر مسلمانوں کے لیے نئی مصیبت کے دروازے کھول دئیے اور تقریباً دو صدی کی جدو جہد کے بعد یہ یہ چھوٹا سا پودا لہلہاتاہوا درخت بن گیا ،عوامی مزاج میں بھی تبدیلی آنے لگی فارسی زبان ہندوستان میں اپنا مقام کھورہی تھی اور اس کی جگہ رفتہ رفتہ انگریزی اپنے قدم جمانے کی کوشش میں سر گرداں ہوکر مصروف عمل تھی۔ مدارس اسلامیہ کے سامنے اس تفریق سے بہت سےچیلنجرز پیدا ہوگئےتھے ۔اہل مدارس نے بھی کبھی اس تبدیلی کے ساتھ ڈھلنے کی سعی نہی کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرکاری حصہ داری ختم ہوگئی
حصول زر کے سارے مواقع پھسل جانے کے بعد مسلمانوں کو معاشی دقتوں نے آن گھیرا اور فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہوگئے۔ پھر عوام اپنے بچوں کو علوم دین سکھانے سے گریز کرنے لگے۔اگر ہندوستان میں کسی قوم کو اٹھارہ سو ستاون کی سب سے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑی ہے تو وہ مسلمان ہی تھے ۔ جولوگ مدارس اسلامیہ کی خدمت کرتے تھے اب وہ خود بھکاری بن گئے اور ان کی روٹیوں کے لالے پڑ گئے
ایسی حالت میں قوم سے چندہ کرنا مدارس اسلامیہ کی بقا اور تحفظ کے لئےضروری ہوگیا۔۔ علما کا مال داروں پر انحصار بڑھتا چلا گیا جب یہ صورت حال پیدا ہوئی توعلما سے حق گوئی چلی گئی چاپلوسی موقع پرستی ان میں کوٹ کوٹ کر بھر گئی علم کی جگہ تلوہ چٹائی نے اپنے سکے چلانے شروع کر دئیے علم کا کمال زوال میں بدل گیا۔اس کانتیجہ یہ ہوا کہ مدارس سے تو علماء تو پیدا ہوتے رہے مگراپنے اسلاف کی طرح دور رس نہیں۔
نا اہل اور جاہل لوگ چاپلوسی کے ذریعے مسجد و مدرسہ میں بڑے عہدوں پر پہنچ گئے۔ مدارس اسلامیہ کا وہ اعتبار جو معاشرے میں میں قائم تھا زوال کی زد میں آ گیا اور نا اہل افراد نے مدارس اسلامیہ کی عوام میں جو تصویر بنائی تو وہ کچھ ایسی بھیانک تھی کہ عوام ان کے کارناموں کو دیکھ کر علماء سے نفرت کرنے لگے اور علماء نے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی
۔ یہ تمام باتیں امت مسلمہ پر بجلی بن کر گری۔باطل طاغوتی قوتیں جو چوہے کی طرح دبک دبک کر دامن اسلام کو کترتے تھے، اب ان میں تفریق ہونے سے کھلی چھوٹ مل گئی۔ انہوں نے عوام میں شیطانی خیالات اور افکارات کو خوب ہوا دی۔ ان کی کاوشوں سے سماج میں لادینیت کے کے ایسے طوفان اور زلزلے آئے جس نے ہمارے مسلہ عقائد و اصول میں تشکیک کی راہیں پیدا کرکے ہمارے بچوں کو دین سے نکال کر بے دینی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔
ہمیں اپنی اور اپنے نسلوں کی زندگی کو تباہ ہونے سے بچانے کیلئے۔ ہمیں اس غلیظ فکر سے بچنا چاہئے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہئے۔ اور ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہئے۔۔!!! اگر اب بھی حالات کا سامنا کرنے کے لئے ہم تیار نہ ہوئے اور ان کو بدلنے کی کوشش نہ کی تو وقت ہمیں ایسی مار مارے گا کہ فلک کے نیچے سے ہمارا نام ونشان مٹ جائے گا، اور پھر آج سے کئی گنا زیادہ ذلت ورسوائی ہمارا مقدر بن چکی ہوگی ۔
7 5 8 1
۔ 1857 سے پہلے مدارس میں جو نصاب پڑھایا جاتا تھا وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق تھا۔ مدارس میں پڑھنے والے طلبہ ہر پوشٹ پر موجود ہوتے تھے۔ جیسے فوج میں۔ پولس میں۔ جج ۔ وکیل وغیرہ۔ مدارس سے فارغ ہونے والے افراد کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، معاشرہ ان کی باتوں پر عمل کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا۔ اور لوگ دینی،سیاسی،اورمعاشی معاملات میں ان سے مشورے لے کر مستفید ہوتے تھے۔ علماء بھی دین ودنیا کے جامع ہوتے اور ماہر علوم و فنون ہونے کے باوجود دنیاوی تقاضوں سے پوری طرح باخبر رہتے۔ دنیا کی بدلتی ہوئی ہر صورت حال پر ان کی نگاہ رہتی۔ باطل طاقتیں ان کے وجود سے لرزتی تھیں۔ اور اسلام کی طرف اٹھنے والا ہر طوفان، ان کے حوصلوں سے ٹکرا کر اپنا بدلنے پر مجبور ہو جاتا۔ معاشرے کی تعمیر وترقی میں ان کی خدمات آج بھی روز روشن کی طرح عیاں ہیں
علماء کرام کیلئے
مدارس میں صنعتی علوم فنون کا بھی کم از کم ایک گھنٹہ ضرور ہوناچاہیے تاکہ فراغت کے بعد فارغین مدرسہ ہنر سے کورے نا ہوں اور اس سے وہ اپنے معاش میں خود کفیل بن سکیں اور معاشرے میں عزت و آبرو کی زندگی بسر کر سکیں ۔
(۱) انگلش، ضرور آنی چاہئے!!! زیادہ نہیں تو اتنی ضرور کہ دوسروں کا محتاج نہ ہونا پڑے۔
(٢) کمپوٹر سیکھنا چاہئے تاکہ رزق حلال کے حصول میں خود کفیل ہو سکے۔ اور عالمی سطح پر اسلام کے خلاف اٹھنے والے اعتراضوں کا علمی اور سنجیدہ جواب دیا جاسکے۔
(۳) اپنے اندر تجارت کا کوئی ہنر ضرور ہونا چاہئے، تاکہ وقت پر اپنی زندگی کو ذلت و رسوائی سے بچا کر خوشی کے ساتھ کزارا جاسکے۔ کیونکہ مدارس اور مساجد کے علاوہ، دین کی خدمت کرنے کے اور بھی بہت سارے طریقے ہیں
آپ نیچےاپنی رائے کا اظہار کرکے ہماری حصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔۔ یا ہماری غلطیوں کو اجاگر کرکے ہمیں صحیح راہ دکھا سکتے ہیں۔۔
3 Comments
بہت اچھا. آپ نے دل خوش کردیا
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت خوب مفتی صاحب
ReplyDeleteMasa Allah nihayat sadar
ReplyDeleteآپ یہاں اپنی رائے کا اظہارکرسکتے ہیں، آپکی کی راۓ ہمارے لئے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آپ کو پوشیدہ رکھا جائے گا 👇👇👇👇