یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- پارہ 5 ۔ سورہ نساء ۔ آیت 29
اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ البتہ جو مال تمہیں آپسی رضا مندی کے ساتھ تجارت کے ذریعے حاصل ہو حاصل ہو۔۔
قرآن کریم میں جہاں بھی پیسے کمانے کا ذکر ہے وہ تجارت کے ذریعے ہے ۔ لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت ملازمت کو پسند کرتی ہے۔ تجارت میں برکت ہے، ملازمت میں نہیں ۔ ملازمت میں غلامیت ہے، اور اسلام صرف اللہ کی غلامیت کو پسند کرتا ہے، اس لئے ہمیں تجارت کو ترجیح دینا چاہئے۔۔۔
>>>>>>>>>>>>>>>>==<<<<<< <<<<<<< <<<<
قرآن کریم میں جہاں بھی پیسے کمانے کا ذکر ہے وہ تجارت کے ذریعے ہے نہ کہ ملازمت کے ذریعے ۔۔
وَاٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِى الْاَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّـٰهِ ۙ وَاٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ۔۔ سورہ مزمل۔ آیت 20 ۔۔
اور کچھ لوگ اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے زمین پر سفر کریں گے، اور کچھ اور لوگ ہوں گے جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے۔۔
تمہیں ساری رات عبادت کرنے کی ضرورت نہیں کیوں نکہ دن تمہیں دو کام کرنے ہوتے ہیں (1) جہاد (2) مضاربت ؛ اور مضاربت تجارت کی ایک قسم ہے، تو اس سے تجارت کا حکم ثابت ہوتا ہے، نہ کہ ملازمت کا۔۔
ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مانگنے کیلئے آۓ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا گھر میں کچھ ہے؟؟ وہ صحابی ایک پیالہ لیکر آۓ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ لیکر صحابہ کرام کے درمیان کہا اس کو کون خریدے گا؟؟ ایک صحابی نے کہا میں ایک درہم میں خرید ونگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کوئی اس سے زیادہ دے گا۔ ایک صحابی نے کہا میں اس کو دو درہم میں خرید لونگا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ دو درہم میں بیچ دیا۔
ان کو دو درہم دئیے اور کہا ایک درہم سے کھانا خریدو ! اور ایک درہم سے کلہاڑی خرید کر جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچوں ۔ اس واقعہ سے بھی تجارت کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔۔
اور آگے چلتے ہیں ۔۔۔
قریش ایک تجارتی قوم تھی گرمی کے زمانے ان کے تجارتی قافلے شام اور فلسطین کی طرف جایا کرتے تھے۔ اور سردی کے موسم میں یمن کی طرف تجارتی سفر کرتے تھے۔ ان ہی تجارتوں پر ان کی معشیت برقرار تھی۔ زمانہ قدیم میں تجارتی قافلوں کو لوٹا جانا ایک عام سی بات تھی، مگر قریش کے قافلوں کو کبھی نہیں لوٹا جاتا تھا ۔ کیونکہ کعبہ سے ان کا تعلق تھا ، قریش کعبہ کے ذمہ دار اور متولی تھے ۔ تمام ہی لوگ کعبہ کا بہت احترام کرتے تھے ، اور لوگ کعبہ کے ذمہ داروں کا بھی احترام کرتے تھے ۔
یہاں حکمت دعوت کے تحت قریش کو یہ واقعہ یاد دلاتے ہوئے انہیں اسلام کی طرف بلایا جارہا ہے، اور ان کو بتایا گیا ہیکہ یہ بہت ناشکری کی بات ہو گی کہ تم بیت اللہ کے ذریعے دنیاوی فائدے تو حاصل کرتے ہو مگر بیت اللہ سے جڑے رہنے کی جو حقیقی ذمہ داری ہے اس کو پورا نہیں کرتے تو انہیں چاہئے کہ وہ اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے کعبہ معظمہ کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک کی حالت میں کھانا کھلایا
تمام آیتوں سے تجارت کی فضیلت معلوم ہوتی ہے
مایوسی اسلام کا حصہ نہیں ہے
ایک آدمی نے ایک بڑی کمپنی میں جوپ کیلئے اپلائی کیا ۔ اس کو انٹریو کیلئے بلایا گیا، وہ انٹریو کیلئے گیا، مالک نے انٹریو لینے کے بعد کہا تمہیں جوپ مل جائے گی۔ اس کو بتایا گیا کہ ہمارے کچھ قوانین ہیں ، ہمارے قوانین کے مطابق چلنے کیلئے فلاں روم میں جاکر دستخط کر دیجئے۔ وہ دستخط کرنے کیلئے روم گئے، روم میں بیٹھے لوگوں نے کہاکہ آپ کو مبارک ہو، ہمیں یقین ہے کہ آپ ہماری کمپنی کو آگے بڑھانے میں مدد گار ثابت ہونگے، اور ہماری کمپنی کے قانون کو فالو کریں گے، ہماری کمپنی کے قانون میں سے ہیکہ آپ کو ایک لاکھ روپے جمع کرنے ہونگے، اس آدمی نے کہا میں اس کے بارے میں غور و فکر کرونگا، یہ کہتے ہوئے روم سے باہر آگیا۔
باہر آکر وہ سوچتا رہا کہ میرے پاس گھر جانے کیلئے پیسے نہیں ہے، میں ایک لاکھ روپے کہاں سے دونگا ، اگر میں نے ایک لاکھ کہیں سے ادھار لیکر دے بھی دئے تو اپنے پیسے کمانے کیلئے مجھے کتنا وقت لگ جائے گا؟؟ پھر وہ لوگ مجھے کمپنی میں کتنے دن رہنے دینگے اس کی بھی گارنٹی نہیں ہے
وہ پریشانی کے عالم میں تھا ایک طرف بیوی بچوں کی فکر ، تو دوسری طرف جوپ کی ٹینشن، وہ ٹینشن کی وجہ سے فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ اس کے پاس صرف پانچ سو روپے بچے ہوۓ تھے، وہ سبزی منڈی گیا اور تین سو روپے کے آلو خریدے، کرایہ پر ایک رکشہ لیا، اور آلو گھر گھر جاکر بیچنے لگا، تین گھنٹے میں وہ 6 سو روپے کما چکا تھا۔ اس کو لگا کہ اسطرح تھوڑی زیادہ محنت کرکے میں اپنے بیوی بچوں کو پال سکتا ہوں، وہ اسی طرح محنت کرتا رہا اور پیسے کماتا رہا، وقت گزرتا رہا اور اس نے ایک دکان خرید لی، پھر کچھ سالوں کے بعد ایک ایسا وقت بھی آیا کہ مارکیٹ میں سب سے بڑی دکان اس کی بن گئی، اور اس کے نیچے بہت سارے لوگ کام کرنے لگے۔
بہت دونوں کے بعد ان کو ایک دوست ملا جس سے انٹریو دینے سے کچھ دیر پہلے دوستی ہوئی تھی۔ اس نے کہا اگر آپ نے بھی ایک لاکھ روپے جمع کر دئے ہوتے تو اس مقام تک نہیں پہونچ پاتے۔
یقیناً تجارت میں وہ برکت ہے، جو ملازمت میں نہیں ؛۔۔۔
کبھی بھی مایوس نہ ہوں اگر كبهى ایک دروازہ کسی کے لئے بند ہوجاتا ہے تو اسكى جگہ اللّٰہ تعالٰی کئی اور دوسرے دروازے کھول ديتا ہے ، بس انسان اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوئے محنت کرے تو يقيناً كاميابى ضرور ملتى ہے!
آپ نیچےاپنی رائے کا اظہار کرکے ہماری حصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔۔ یا ہماری غلطیوں کو اجاگر کرکے ہمیں صحیح راہ دکھا سکتے ہیں۔۔۔ ۔
2 Comments
آپ نے بہت اچھی بات کہی پر
ReplyDeleteمیں خود اک کسان کا بیٹا ہو لیکن وہ سب کام
نہیں کرنا چاہتا ہو اور اچھا بھی نہیں لگتا ہے
آخر کیا کروں
میں آپ کی بات سے سہمت ہو اس میں محنت زیادہ ہے اور پیسے کم ہیں۔
Deleteمیں آپ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا اس لۓ میں مشورہ بھی نہیں دے سکتا۔ مگر آپ اپنے گھر میں مشورہ کرکے کوئی بزنس شروع کر سکتے ہو۔
اور آپ اون لائن بھی بزنس کرسکتے ہو جیسے شیئر مارکیٹ میں، بٹ کوئن میں
آپ یہاں اپنی رائے کا اظہارکرسکتے ہیں، آپکی کی راۓ ہمارے لئے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آپ کو پوشیدہ رکھا جائے گا 👇👇👇👇