••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
یہ سوال ہمیشہ سے کیا جاتا رہا ہے
جواب: حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب
لبرل لوگوں کو شکایت ہے کہ محراب ومنبر کے وارث مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ ان کی بڑی تعداد محنت مزدوری یا نوکری اور تجارت سے اپنا پیٹ کیوں نہیں پالتی؟ ان میں سے اکثر چندے اور قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے بجائے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یا وزن اٹھا کر اپنی روزی کیوں نہیں کماتے؟
یہ شکایت نئی نہیں، بہت پرانی ہے اور جب سے مسجد اور مدرسہ نے ایک ریاستی ادارے کی حیثیت سے محروم ہوکر پرائیویٹ ادارے کی حیثیت اختیار کی ہے اور اسے اپنا وجود برقرار رکھنے اور نظام چلانے کے لیے صدقہ، زکوٰۃ، قربانی کی کھالوں اور عوامی چندے کا سہارا لینا پڑا ہے، تب سے یہ شکوہ زبانوں پر ہے اور مختلف طریقوں سے وقتاً فوقتاً اس کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔
مغل حکومت
مغل حکومت کے دور میں مسجد ومدرسہ کو ریاستی ادارے کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کے اخراجات کی ذمہ داری ریاست پر تھی۔ درس نظامی ملک کا سرکاری نصاب تعلیم تھا اور عدالتوں میں اسلامی احکام وقوانین کی عمل داری تھی۔ جب اس سارے سسٹم کو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد انگریزی سرکار نے لپیٹ کرایک طرف رکھ دیا اور مساجد ومدارس کی بندش کے ساتھ ساتھ ان کے لئے مخصوص اوقاف ووسائل بھی ضبط کر لیے تو باقی سارے معاملات سے قطع نظر کم سے کم عام مسلمانوں کی عبادات کا نظام برقرار رکھنے اور ان کے لیے دینی تعلیم کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے عوامی چندے اور زکوٰۃ وصدقات کے ذریعے سے مسجد ومدرسہ کے نظام کو چلانے کا رجحان پیدا ہوا اور کچھ اصحاب بصیرت نے غریب عوام کے سامنے جھولی پھیلا کر زکوٰۃ وصدقہ اکٹھا کرکے، قربانی کی کھالیں جمع کرکے بلکہ ایک ایک گھر سے روٹی مانگ کر مسجد ومدرسہ کے اس نظام کو تباہ ہونے سے بچا لیا، ورنہ تاشقند اور سمرقند میں ایسی مساجد میں نے خود دیکھی ہیں اور وہاں نمازیں ادا کی ہیں جو گزشتہ نصف بلکہ پون صدی کے عرصہ میں سیمنٹ کے گودام اور سینماہال کے طورپر استعمال ہوتی رہی ہیں۔ اگر ہمارے ہاں کے منبر ومحراب کے وارث کھالوں اور چندوں کے پیچھے نہ پھرتے تو یہاں بھی صورت حال تاشقند اور سمرقند سے مختلف نہ ہوتی۔
دو طرح کے لوگوں کا اعتراض
مسجد ومدرسہ مولوی اور چندہ کے اس نظام پر دو قسم کے حضرات کو اعتراض ہے اور ان کی شکایت کے پس منظر کو الگ الگ طورپر سمجھنا ضروری ہے۔ کچھ حضرات کو تو اس بات پر غصہ ہے اور وہ اپنے غیظ وغضب کو چھپانے میں کامیاب نہیں ہو رہے کہ یہ نظام ابھی تک بدستور قائم کیوں ہے؟ اور نہ صرف قائم ہے بلکہ مغرب اور اسلام کے درمیان گلوبل سولائزیشن وار میں ایک ناقابل تسخیر مورچہ کی حیثیت کیوں اختیار کیے ہوئے ہے؟ اور چونکہ اس نظام کے باقی رہنے بلکہ دن بدن ترقی کرنے میں ظاہری سبب یہی صدقہ زکوٰۃ، قربانی کی کھالیں اور چندہ ہے، اس لیے انہیں یہ سارا کچھ بر ا لگتا ہے، لیکن کچھ حضرات خیر خواہی اور خلوص کے جذبہ کے ساتھ بھی اس خواہش کا اظہار کر دیتے ہیں کہ علماے کرام کو صدقہ وزکوٰۃ کے بجائے کوئی ہنر اپنا کر اپنی معیشت کا انتظام کرنا چاہیے۔ ایسے دوستوں کے پیش نظر انتہائی خلوص کے ساتھ یہ بات ہوتی ہے کہ منبر ومحراب کے وارثوں کا معاشرتی مقام بلند ہونا چاہیے اور انہیں لوگوں کا دست نگر ہونے کے بجائے خودکفیل ہو کر دینی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے تاکہ ان کی بات میں زیادہ وزن ہو اور وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ معاشرہ کی دینی قیاد ت کر سکیں، مگر منبر ومحراب کے وارثوں کے لئے ان کے خواہش کو پور ا کرنا آسان ہے۔؟؟؟
ایک طرف حافظ اور قاری کے ذاتی اور معاشرتی وقار کا مسئلہ ہے ۔ اور دوسری طرف مسجد ومدرسہ کے نظام کو باقی رکھنے کے تقاضے ہیں ۔ اور مولوی پوری ہوش مندی کے ساتھ آج بھی اپنے ذاتی مفاد پر مسجد ومدرسہ کے نظام کو ترجیح دے رہا ہے، اور دوسروں کی زندگی کو گمراہی سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔
حید رآباد کے نواب کو جواب
ایک دور میں ریاست حیدر آباد دکن کے نواب نے جو اپنے دور کے امیر ترین حکمران سمجھے جاتے تھے، دارلعلوم دیوبند کی انتظامیہ کو پیش کش کی کہ اگر دارالعلوم کے نصاب میں کچھ جدید مضامین کو بھی شامل کر لیا جائے تو وہ دارالعلوم کے اخراجات میں تعاون کرنے اور دارالعلوم کے فضلا کو اپنی ریاست میں ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں تو اس کے جواب میں مولانا رشید احمد گنگوہی نے یہ تاریخی جملہ کہہ کر اس پیش کش کو مسترد کر دیا تھا کہ ہم ریاست حیدر آباد کا نظام چلانے کے لئے نہیں، بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی نماز، روزہ اور دینی تعلیم کا نظام باقی رکھنے کے لیے پڑھا رہے ہیں۔
ان کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اگرہم بھی اپنے مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کو جدید تعلیم کا ٹچ دے کر ریاستی نظام کے کل پرزے بنا دیں تو پھر مسجدوں میں نماز کون پڑھائے گا؟ اور لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم کون دے گا؟اس لئے اس دور کے اکابر علما نے شعوری طورپر حکمت عملی کے تحت اپنے طلبہ کو جدید علوم اور ہنر وفن سے دور رکھا تاکہ وہ مسجد اور مدرسہ کے علاوہ کہیں فٹ نہ آسکیں اورعام مسلمانوں کا عبادات اور دینی تعلیم کا نظام چلتا رہے، ۔۔۔۔
لبرل لوگوں کا اس حدیث کے ذریعے اعتراض کرنا
لبرل لوگ ایک واقعہ کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کرنے والے شخص کو کلہاڑی دے کر جنگل سے لکڑیاں کاٹنے اور محنت کرکے پیٹ پالنے کی ترغیب دی تھی۔ یہ واقعہ درست ہے اور کسی بھی تندرست شخص کے لیے یہی حکم ہے تاکہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے محنت مزدوری کرکے روٹی کمائے۔۔
لیکن یہاں ایک عمومی رویہ اور الجھن کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ لوگ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے انفرادی واقعات کا سہار ا لے کر ان کے حوالہ سے اپنے جذبات وافکار پیش کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگراس دور کے سسٹم اور نظام کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ جس مسئلہ پر ہم بات کررہے ہیں، اس کی حیثیت جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کے رائج کردہ مجموعی نظام میں کیاتھی؟ اس لیے اس سلسلہ میں دو حوالے سامنے لانا مناسب خیال کرتا ہوں۔
آپﷺ کا ذریعہ معاش
(1) نبوت ملنے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا ذریعہ معاش کیا تھا؟ ضابطہ اور قانون کے طورپر جنگوں میں حاصل ہونے والے مال غنیمت کا ۵/۱ حصہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خاندان کے اخراجات کے لئے مخصوص ہوتا تھا، یعنی کسی بھی جنگ میں حاصل ہونے والے کل مال غنیمت کا بیس فیصد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے متعین رہتا تھا جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل خانہ کے اخراجات پورے ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ آخر وقت تک جاری رہا حتیٰ کہ اسی مال غنیمت میں سے ایک بہت بڑے باغ فدک کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت سمجھتے ہوئے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خلیفہ اول حضرت ابوبکر سے اسے وراثت کے طور پر انہیں منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ یہ باغ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے طور پر نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ بیت المال کی ملک رہے گا، البتہ اس کی آمدنی سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور دیگر اہل خانہ کے اخراجات بدستور ادا کیے جاتے رہیں گے۔ خلاصہ یہ ہیکہ اپنا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا۔۔۔
(2) جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ بنے تو ان کا معاملہ یہ تھا کہ مدینہ منورہ سے تھوڑے فاصلہ پر سنح نامی جگہ میں ان کی کپڑے کی کھڈیاں تھیں اور وہ کپڑا بیچ کر گزارا کیا کرتے تھے۔ خلیفہ بننے کے بعد وہ حسب معمول کپڑوں کی گٹھڑی اٹھا کر بازار کی طرف چلے تو حضرت عمرؓ نے انہیں روک لیا کہ آپ کاروبار میں مصروف رہیں گے تو لوگوں کے معاملات کون نمٹائے گا؟ اس لیے آج کے بعد آپ کاروبار نہیں کریں گے اور کاروبار سلطنت کے لیے خود کو فارغ رکھیں گے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کی تجویز پر خلافت راشدہ کی مجلس شوریٰ کا پہلا اجلاس ہوا جس میں حضرت صدیق اکبرؓ کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اسی سے فقہاے کرام نے یہ اصول اخذ کیا کہ جو شخص بھی امت کے اجتماعی کاموں کے لیے وقف ہوجائے، اس کے اخراجات اور ضروریات زندگی کی کفالت بھی اجتماعی آمدنی میں سے ہوگی۔ چنانچہ اسی اصول کے تحت حاکم، قاضی، مجاہد، معلم اور امام وغیرہ حضرات کی تنخواہ اجتماعی آمدنی سے ادا کی جاتی ہے۔۔۔اور یہ صرف ہمارے ہاں نہیں، بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کے نظام میں یہی اصول ہے اور اجتماعی کاموں کے لئے وقت دینے والے حضرات کے اخراجات اجتماعی آمدنی میں سے ہی ادا کیے جاتے ہیں۔ اب ایک ڈپٹی کمشنر کو دیکھ لیجیے۔ اس کی تنخواہ عام لوگوں سے جمع کی گئی رقم سے ہی دی جاتی ہے اور ایک مدرسہ کے مہتمم کی تنخواہ بھی عام لوگوں سے جمع کی گئی رقم سے ہی دی جاتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر کے لیے جمع کی جانے والی رقم ٹیکس کہلاتی ہے ۔ اور مہتمم مدرسہ کی تنخواہ کے لیے جمع ہونے والی رقم کو چندہ کہا جاتا ہے۔۔۔۔
عیش
بات کچھ لمبی ہوتی جارہی ہے، لیکن اس حوالہ سے ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ مولوی صاحبان صرف پانچ وقت کی نمازیں پڑھا کر سارا دن فارغ بیٹھے رہتے ہیں اور لوگوں کے چندوں پر عیش کرتے ہیں، اس لیے اس فراغت اور عیش کی جھلک بھی سامنے آجائے تو مناسب ہوگا ۔۔ اورا س کے لیے میں اپنے ذاتی مشاہدہ کی ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ ہمارے ہاں مرکزی جامع مسجد میں ایک عالم صاحب امام ہیں جن کی ذمہ داری یہ ہے کہ چوبیس گھنٹے پانچویں وقت کی نمازوں کی امامت کے لئے موجود رہنا ہے ۔ اور اس کے علاوہ صبح اور شام کو بچوں کو پڑھانا،گھر گھر جاکر لوگوں کو دین کی دعوت دینا، کسی کے مرنے پر نماز پڑھا نا، ان کے مرنے والوں کیلئے قرآن پڑھ کر اور دعا کر کے جنت میں پہونچانا، نماز میں تھوڑا لیٹ ہونے پر انکی باتیں سننا، نماز کے لمبی یا چھوٹی ہوجانے پر ان کے غصو کو برداشت کرنا، وغیرہ۔ ان تمام کام کے بدلے میں جو ’’عیش‘‘ فراہم کی جاتی ہے، اس پر بھی ایک نظر ڈالیں۔ مسجد میں رہنے کیلئے ایک چھوٹا سا کمرہ، تین وقت کا کھانا، اور 8000سے 10000 ہزار روپے💵💵💵💵💵 ایک بنھگی ادھار گھنٹہ جھاڑو لگاتا ہے تو اس کو تیس سے پینتیس ہزار روپے دۓ جاتے ہیں
چلتے چلتے ایک نظر ادھر بھی
نیکی اور عبادت صرف نماز پڑھانا اور بچوں کو دینی تعلیم دینا ہی نہیں ہے۔ عدالت میں بیٹھ کر لوگوں کو انصاف مہیا کرنا، سڑکوں اور راستوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کی حفاظت کرنا، اور بچوں کو تعلیم دینا بھی نیکی ہے، اور اسے عبادت کا درجہ حاصل ہے ۔ اور جس طرح قرآن پڑھانے کا کوئی معاوضہ نہیں ہوسکتا، اسی طرح انصاف کی بھی کوئی قیمت نہیں ہوتی، اس لئے ہمت کرکے یہ بھی بولا کرو کہ، عدالت کے منصب پر بیٹھ کر انصاف دلانے والے، سڑکوں اور راستوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کی حفاظت کرنے والے، اسکولوں میں بچوں کو پڑھا کر، لوگوں کے پیسوں پر عیش کرنے والے محنت اور مزدوری کرکے، یا نوکری اور تجارت کرکے اپنا پیٹ کیوں نہیں پالتے اور لوگوں سے وصول کی جانے والی ٹیکس سے تنخواہ حاصل کرنے کے بجائے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر یا وزن اٹھا کر اپنی روزی کیوں نہیں کماتے؟
ہماری اس ویب سائٹ پر جاکر اپنی پسند کا مضمون پڑھ سکتے ہیں 🔎🔎🔎🔎🔎🔎🔎🔎🔎🔎🔎🔎🔎🔎
نیچے دئے گئے مضمون میں سے جو پڑھنا چاہتے ہیں اس پر کلک کیجئے
دارالعلوم دیوبند کو عالمی قیادت کا مرتبہ کیسے ملا، مولانا تقی عثمانی صاحب کی زبانی
0 Comments
آپ یہاں اپنی رائے کا اظہارکرسکتے ہیں، آپکی کی راۓ ہمارے لئے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آپ کو پوشیدہ رکھا جائے گا 👇👇👇👇