بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم
یہ مضمون بیان کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا ہے۔
اس دنیا میں زندگی گزار نے والا ہر فرد بشر اختلاف و انتشار کے ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں ہر طرف نفرتوں عداوت اور دشمنی کی ہواۓ چل رہی ہیں
جاسوسی، تعصب پرستی، اور الزام تراشی نے، قومیت، اور عصبیت کے غرور نے، غیبت، چغل خوری دغابازی جیسے گناہوں نے ہمارےپر سکون ماحول کو زہر آلود بنایا دیا ہے، ہمارے پر سکون ماحول کو زہر آلود بنانے میں بہت سارے گناہ شامل ہیں مگر ان میں سے ایک گناہ غیبت یے، اور غیبت ایک ایسا گناہ ہے جو ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہےجب تک ہم اس کو انجام نہیں دیتے تب تک ہمارے دلوں دماغ کو سکون نہیں ملتا
سب سے پہلے ہم غیبت کو جانتے ہیں، غیبت کیا ہے، غیبت کی تعریف کیا ہے، غیبت کسے کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «أتدرون ما الغِيبَةُ؟»، قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: «ذكرُك أخاك بما يكره»، قيل: أرأيتَ إن كان في أخي ما أقُول؟ قال: «إن كان فيه ما تقول فقدِ اغْتَبْتَهُ, وإن لم يكن فقد بَهَتَّهُ».۔۔ مسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟‘‘، صحابہ کرام نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (غیبت یہ ہے کہ) تم اپنے بھائی کا ذکر اس انداز میں کرو جو اسے نا پسند ہو‘‘۔ پوچھا گیا کہ اگر وہ بات میرے بھائی میں فی الواقع موجود ہو تب بھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:”جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت (چغلی) کی اور جو تم بیان کر رہے ہو اگر وہ اس میں موجود نہیں ہے تو تم نے اس پر تہمت باندھی“۔
یعنی اپنے بھائی کے بارے میں اسکی عدمِ موجود گی میں اس کے پیٹ پیچھے اسطرح کی بات کرنا کہ اگر اس کو اس بات کا علم ہوتو اس کو پریشانی ہو اس کے دل کو تکلیف پہونچے۔ پھر صحابی نے معلوم کیا جو بات میں نے اپنے بھائی کے بارے میں کہیں ہے۔ اگر وہ بات واقعی میں، اس میں پائی جاتی ہو تو کیا پھر بھی غیبت ہوگی ۔ نبیﷺ نے فرمایا اگر واقعی میں اس میں وہ بات پائی جارہی ہے تو ۔۔
اے ایمان والو! بہت سی گمان سے بچتے رہو، کیوں کہ بعض گمان گناہ ہیں، اور جاسوسی نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی سے غیبت کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔۔ پارہ نمبر 26 سورۃ حجرات آیت 12
قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہیکہ غیبت کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ اور گناہ کبیرہ سے ہر انسان کو بچنا چاہئے، لہذا اگر کوئی شخص کسی کی غیبت کرتا ہے تو ایسا ہے جیساکہ اسنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھایا ہے۔ ایک مسلمان مرے ہوئے جانور کا گوشت کھانا پسند نہیں کرتا چے جائے کہ وہ مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے۔ کسی عارف باللہ نے لوگوں سے معلوم کیا دنیامیں سب سے زیادہ گوشت کس کا کھا یا جاتا ہے۔ لوگوں نے الگ الگ جوا بات دۓ کسی نے کہا سب سے زیادہ بکرے کا ، کسی نے کہا سب سے زیادہ مرغے کا ، اور کسی نے کہا سب سے زیادہ اونٹ کا۔۔ الگ الگ لوگوں کے الگ الگ جوابات تھے اس بزرگ نے کہا دنیا میں سب زیادہ گوشت انسانوں کا کھا یا جاتا ہے۔ وہ اسطرح کہ غیبت کو اپنا شعار بنا لیا جائے، چغل خوری کو زندگی کا حصہ بنا لیا جائے ، پیٹ پیچھے لوگوں کی برائی کرنے کو اپنا مشن بنالیا جاۓ۔۔
اگر کسی زندے انسان کا گوشت کاٹا جاۓ تو اس کو کس قدر تکلیف ہوگی اسی طرح جب کسی انسان کی غیبت کی جاتی اور اس کی عزت کو تار تار کیا جاتا ہے۔ تو اس کو بھی اسی قدر تکلیف ہوتی جس قدر انسان کو اس کے گوشت کے کاٹنے پر تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستوں آج ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں اپنی سو سائٹی پر ایک نظر ڈالیں اور اپنے گھروں کو دیکھیں نماز نہ پڑھنے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں روزہ نہ رکھنے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، زکوۃ نہ دینے کو نہ گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، نماز چھوڑ کر ہمیں گناہ کبیرہ کا احساس ہوتا ہے۔ روزہ، چوڑ کر ہمیں گنا کبیرہ کا احساس ہوتا ہے۔ شرابی شراب پیکر گناہ کبیرہ کا احساس کرتا ہے۔ زانی زنہ کرکے گناہ کبیرہ کا احساس کرتا ہے۔ مگر دوستوں آج غیبت ہمارے معاشرے میں ہماری نشستوں میں ہماری محفلوں میں اور ہمارے گھروں میں اس طرح عام ہوگئی ہے۔ کہ ہم روزانہ اس کو انجام دیتے ہیں مگر کبھی گناہ کا خیال تک نہیں آتا ۔ چھوٹے سے لیکر بڑے تک بچے سے لیکر بوڑھے، تک مرد ہو یا عورت عالم ہو یا جاہل ڈاکٹر ہو یا انجینئر تمام کے تمام لوگ اس گناہ کبیرہ کو انجام دے رہے ہیں مگر کبھی گناہ کبیرہ کا احساس تک نہیں ہوتا ۔۔۔
مسجد کی اگلی صف میں بیٹھ کر غیبت چل رہی ہے۔ ذکر کرنے والا ہاتھ میں تسبیح لیکر ذکر کر رہا ہے۔ مگر غیبت بھی چل رہی ہے ۔ قرآن پڑھنے والا قرآن پڑھ رہا ہے۔ مگر غیبت بھی چل رہی ہے۔جماعت میں جانے والے جماعت میں جا رہے ہیں گشت اور ملاقات والا عمل چل رہا ہے مگر غیبت بھی ہو رہی ہے حج بھی ہو رہا ہے۔ غیبت بھی ہو رہی ہے۔ غیبت ہماری زندگی میں اسطرح عام ہوگیا کہ ہم نے اسکو گناہ ہی سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔
عن أنس بن مالک قال قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :لماعرج بي مررت بقوم لہم أظفار من نحاس یخشون وجوہہم وصدورہم قلت:من ہولآء یا جبرئیل؟قال ہولآء الذین یأکلون لحوم الناس ویقعون في أعراضہم
انس بن مالکبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :معراج کے دن میرا گذر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے جو اپنے چہرے اور سینوں کو چھیل رہے تھے ،میں نے کہا یہ کون لوگ ہیں؟حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا: یہ وہ لوگ ہیں جودوسرے لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے۔۔۔
الغِيبةُ أشدُّ مِنَ الزِّنا ، إِنَّ الرجلََّ يتوبُ فيتوبُ اللهُ عليْهِ ، وإِنَّ صاحِبَ الغَيْبَةِ لَا يُغْفَرُ لَهُ حتَّى يَغْفِرَ لَهُ صاحِبُهُ
غیبت زنا سے بڑا گناہ ہے، اس لئے کہ زانی زنا کرنے کے بعد اگر اللہ تعالیٰ سے تو بہ استغفار کرلیتا ہے تو الله تعالٰی سے یقین ہیکہ الله تعالٰی اس کے گناہ کو فرما دیں گے۔۔ لیکن غیبت کرنے والا الله تعالٰی سے تو بہ استغفار کرتا ہے تو الله تعالٰی اس کے گناہ کو اس وقت تک معاف نہیں کرینگے جب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی غیبت کی گئی ہے ۔۔۔۔۔
اس طرز عمل (غیبت ) کی وجہ سے ہم پر کئی بار ایسے حالات آتے ہیں کہ ہم خوف زدہ ہوجاتے ہیں، آنکھوں کی نیند اڑ جاتی ہے۔ بہت سارے لوگوں کو مارتے اور مرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور بہت لوگوں کی زندگیاں برباد ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
غیبت ہمارے معاشرے کیلۓ کینسر کی طرح ایک بیماری بن چکی ہے۔ اس بیماری نے ہمارے معاشرے کو ہماری سو سائٹی کو ہماری محفلوں اور ہمارے گھروں کو تباہو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اس غیبت نے بھائی چار گی کو ختم کرکے پیارو محبت کی جڑوں کو اکھاڑ کرکے نفرت و عداوت کو وجود بخشا ہے ۔
آج گھر گھر میں لڑائیاں ہو رہی ہیں بازار میں لڑائیاں ہو رہی ہیں دفترو میں لڑائیاں ہو رہی ہیں بھائی بھائی سے نفرت کرتا ہے۔ پڑو سیوں میں ہمیشہ لڑائیاں ہوتی رہ تی ہےیہاں تک کہ مسجدوں میں بھی لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ ان سب کی کیا وجہ ہے؟؟ ان کی بہت ساری وجہ ہوسکتی ہیں مگرایک وجہ زبان کا غلط استعمال کرکے لوگوں کی غیبت اور برائی بیان کرنا ہے۔
غیبت کی وجہ سے آج ہمارے گھروں کے گھر اجڑ گئے۔ ہمارےگھر جل گئے ہیں ۔۔ہستے مسکرا تے چہرے ویران ہوگئے محبت نفرت میں بدل گئی۔۔ زندگی موت بن گئی۔۔ آپس کی محبتیں ماضی کی داستان بن گئی ۔ اور آپس کی الفتیں ۔۔ کتابوں کی کہانیاں بن کرصرف کتابوں تک ہی محدود ہو چکی ہیں۔۔
ناظرین حقیقت یہ ہیکہ غیبت کی وجہ سے ہمارے معاشرے کو اور ہماری زندگی کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے اور ہمارا معاشرہ اور ہماری زندگی بہت پیچھے جاچکی ہے،، غیبت کرنے والا اور غیبت سننے والا دونوں گناہ میں برابر کے شریک ہیں، اس لئے ہمیں غیبت کرنے اور سننے سے بچنا چاہئے
الله تعالٰی سے دعا ہیکہ الله تعالٰی ہم سب کو اس گناہ کبیرہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔
___________________________________
حسد
۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم حسد سے بچو، کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘
حسد کہا جاتا ہیکہ دوسرے کی بربادی کو پسند کرنا ، دوسرے کی اچھی حالت کو دیکھ کر جلنا۔۔ مثال کے طور پر ایک شخص جب دیکھتا ہے کہ اس کے بھائی کے پاس گاڑی آگئی ہے تو وہ آرزو کرتا ہے کہ کاش یہ گاڑی اس سے چھن جائے، اس کی گاڑی کو کوئی نقصان پہنچ جائے تاکہ اس کی راحت میں اضافہ ہو ۔
حسد ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج دنیا کا کوئی بھی ڈاکٹر نہیں کرسکتا، اس کا علاج صرف دعا اور ذکر یے، یہ بیماری جس کو لگ جاتی ہے اس کو ہر جگہ پریشان کرتی ہے۔ وہ گھر میں رہے گا تو پڑوسیوں کو دیکھ کر دیکھ کر جلے گا، اس کی بلڈنگ اتنی اونچی کیسے ہوگئی، اس کے گھر میں اتنی گاڑیاں کیوں ہیں، اس کے بچے اتنے پڑھے لکھے اور عزت دار کیسے ہوگئے، وہ گھر والے اتنے سکون کے ساتھ کیوں رہتے ہیں،۔۔۔ پازا میں جائے گا تو، اس کی دکان میں اتنے گراہک کیوں آتے ہیں، میری دکان میں کیوں نہیں آتے، اس کی کمائی اتنی زیادہ ہوتی ہے میرے اتنی کیوں نہیں ہوتی، اس کے خلاف لوگوں کو بھڑکا ئے گا کہ وہ آدمی اچھا نہیں ہے، وہ نکلی سامان بیچتا، تم میں مجھ سے خریدو مجھے دس روپے کم دینا، ،،،، ،، دوستوں میں بیٹھے گا تو، وہ اتنا عزت والا کیوں ہے اس کو لوگ اتنی ویلیو کیوں دیتے ہیں، وہ اتنا خوبصورت اور صحت مند کیسے ہوتا جا رہا ہے،۔ یعنی حسد کی بیماری اس کو ہرجگہ پریشان کریگی
*حاسد کی سزا* واقعات
*تم اپنی ماں کا نکاح میرے ساتھ کردو!!!*
امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا تین دن تعزیت کے لیے بیٹھے رہے تین دن کے بعد باہر نکل کر چوک میں آگئے، ایک بندہ آپ کا حاسد تھا سخت مخالف تھا اور سارا علاقہ جانتا تھا کہ اپ کا مخالف ہے، جب اپ باہر نکلے تو چوک میں بہت سارے لوگ تھے وہ بھی سامنے سے آیا۔
السلام علیکم کے بعد کہنے لگا؛ ابو حنیفہ! سنا ہے آپ کے والد انتقال کر گئے ہے؟ فرمایا ہاں ۔۔
کہنے لگا اپنی ماں کا نکاح میرے ساتھ کر دو۔ `الله أكبر` ایسا سخت جملہ کہ وہ انسان کی نیند میں سوراخ کر دیتا ہے انسان سو نہیں پاتا، آپؒ کھڑے رہے جملہ سخت تھا، مگر بات تو شرعی تھی غیر شرعی تو نہیں تھی، تو امام صاحب کے ساتھ جو شاگرد تھے عقیدت مند تھے انہوں نے تلواریں نیام سے نکالی، آپؒ نے فرمایا چپ کر جاؤ ہم کوئی لاوارث تو نہیں ہیں، حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ساری ہمت سمیٹی، آنکھ میں آنسو جو چمکے تو ان کو بھی دامن میں سمیٹ لیا، ہمت جمع کر کے کہنے لگے؛ میاں تم نے کہا ہے میں اپنی ماں کا نکاح تیرے ساتھ کر لوں۔
تو عدت گزر لینے دے تیرا نام لے کے اماں سے بات کروں گا اگر وہ تیرے ساتھ نکاح کرنا چاہے تو مجھے اعتراض کوئی نہیں، یہ کہہ کے اپنے دوستوں کے بازو تھامے اگلے چوک میں گئے، وہ بندہ دھڑام سے زمین پہ گرا اور روح پرواز کر گئی، لوگ کہنے لگے حضور اسے کیا ہوا؟
آپؒ فرمانے لگے اس نے سمجھا تھا میں لاوارث ہوں، اسے کچھ بھی نہیں ہوا، ابو حنیفہ کے صبر نے اس کی جان لے لی ہے۔
کئی دفعہ لوگ بڑے سخت جملے کہہ دیتے ہے بڑی تکلیف ہوتی ہے، حسد بڑی بری چیز ہے اس کے شر سے اللہ ہم سب کو محفوظ فرمائے۔آمین
*"امام اعظم ابو حنیفہؒ کی سیرت و تاریخ" صفحہ نمبر ۱۲۵
*نوٹ* اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے
0 Comments
آپ یہاں اپنی رائے کا اظہارکرسکتے ہیں، آپکی کی راۓ ہمارے لئے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آپ کو پوشیدہ رکھا جائے گا 👇👇👇👇