تمہید


                  بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم

                      تمہید

     یہاں بہت ساری تمہید بیان کی گئی ہیں جس کو مضمون یا تقریر میں شامل کیا جاسکتا ہے۔۔ 
    الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضللہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ:     وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا۔ اسرائیل 23۔ 

 اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
   میں نے آپ حضرات کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت کی ہے، میں اس آیت کی روشنی میں آپ حضرات کے سامنے کچھ باتیں عرض کرنے کی کوشش کروں گا اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی مجھے صحیح صحیح کہنے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،   اسلام ایسا مذہب ہے جو زندگی کی ہر موڑ پر انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام بھائی چارگی، اور پیاروں محبت کا درس دیتا ہے۔ جیسے بھوک سے شکتہ حال لوگوں کو کھانا کھلا نا،پیاس سے تڑپتے ہوئے انسانوں کو پانی پلانا ، پریشان حال لوگوں کی پریشانی کو دورکرنا یا کرنے کی کوشش کرنا، اور بیماروں کی عیادت کرنا یہ وہ کام ہیں جن کے کرنے پر دنیا و آخرت میں انعام کا وعدہ کیا گیا ہے،،  اسی طرح اسلام میں برائی کی راہ سے بچتے ہوئےاور گناہوں سے گریز کرتے ہوئے راہ مستقیم کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جسطرح دنیا میں نیک کام کرنے پر  اجروثواب کا وعدہ کیا گیا ہے، اور آخرت میں   خوشی اور مسرت سے آراستہ جنت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، تو اسی طرح گناہوں کے کرنے پر ڈرایا گیا ہے، اور آخرت میں پریشانیوں اور مصیبتوں سے بھرے ہوئے جہنم میں ڈال کر سخت سزا کی دھمکی دی گئی ہے۔ اسلئے ہمیشہ برے اعمال اور برے کاموں سے بچنا چاہئے اور اچھے اعمال میں حصہ لیکر اچھے اعمال کرنا چاہئے۔۔۔۔۔ 

           میری آپ کی زندگی ایک عام سی زندگی ہے، اس میں معجزے اور کرامت نہیں ہوتے۔ ترقی اور کامیابی کیلئے جستجو انگنت محنت اور بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے اور اس کو تعمیر کرنے کیلئے پر خطر اور مشکل ترین راہوں پر چلنا پڑتا ہے۔جان کو پگلانا پڑتا ہے، مشکل لمحات، انتہائی کٹھن مراحل، اور تکلیف دہ راستوں پر سے گزرنا پڑتا ہے۔ تنگ گھاٹیوں کو عبور کرنا پڑتا ہے، تو کبھی لوگوں کے تعنو کو سننا پڑتا ہے۔ اور نہ کردہ گناہ کے الزامات کو سہنا پڑتا ہے۔ سمجھدار لوگ جب اس کو سمجھ لیتے ہیں زندگی کے راز کو جب پالیتیے تو وہ لوگ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے ، جہد مسلسل سے اپنا رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔ کامیابیوں کی سیڑھیوں پر جب وہ چڑھنے لگتے ہیں تو محسوس ہوتا ہیکہ  منزل ان کی تلاش میں نکلی ہے   کیونکہ زندگی ایک جنگ ہے اور اسکو  اپنے زور بازوں سے جیتنا پـڑتا ہے ۔۔۔ 

      

            مذہب اسلام نے تمام پریشانیوں کا حل بتا ہے چاہے وہ پریشانی انفرادی ہو یا اجتماعی، اللہ تعالیٰ نے تمام پریشانیوں کا احکام خدا وندی اور سنت رسول میں رکھی ہے۔ اور جن لوگوں نے اس کو اپنایا وہ لوگ کامیاب ہوۓ۔ ہم الله تعالٰی کی حکموں کو توڑ کر اور نبی کے طریقے کو چھوڑ کر اپنی پریشانیوں کو حل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے...... 

    

ا    اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو دنیا میں خلیفہ بنا کر بھیجا تھا تاکہ آدم اور اس کی اولاد دنیا میں وہ نظام حیات قائم کرے جو اللہ کی مرضی کے مطابق ہو اور سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو بھی اور بعد میں وقتاً فوقتاً ان کی اولاد کو بذریعہوحی بتلا بھی دیا تھا۔ اور نظام خلاف کے قائم کرنے کے لئے جو اوصاف درکار تھے وہ سب آدم اور اس کی اولاد کی فطرت میں ودیعت کردیئے گئے تھے۔ ساتھ ہی انسان کو قوت ارادہ و اختیار بھی دیا گیا۔ اور اسی میں حضرت انسان کی آزمائش رکھ دی گئی کہ آیا وہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ اس مقصد خلافت کو پورا کرتا ہے یا نہیں ؟ اور چونکہک ایسے اوصاف ہر انسان کی فطرت میں رکھ دیئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے آدم کی تمام تر اولاد خلافت کی مستحق قرار پاتی ہے۔ التبہ ان سے وہ لوگ از خود خارج ہوجاتے ہیں جو اپنی مرضی اور اپنی خواہشات کو اللہ کی مرضی کے تحت نہ بنائیں۔ اس آیت کی رو سے منافقین کو اس خلافت ارضی کے استحقاق سے خارج کردیا گیا اور ان لوگوں کو بھی جو سرے سے ایمان ہی نہ لائیں یا ان کے اعمال صالح نہ ہوں۔۔۔۔۔ 

     ہماری زندگی اللہ تعالی کی دی ہوئی امانت ہے۔ ہماری پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں،  ہم اللہ کے حکموں کی مخالفت کرکے اپنی زندگی کو کامیاب نہیں کرسکتے!! اللہ کے حکموں کے مطابق چل کر ہم اپنی زندگی کو کامیاب کرسکتے ہیں۔۔۔ 

    امت کے اندر پھیلتی بدعتیں اور رسومات دیکھکر کلیجہ منہ کو آتا ہے دل خون کے آنسو روتا ہے، ہر شخص اپنے طریقے کو درست بتا کر مختلف تاویلات کرکے اپنے دل کو تسلی دے لیتا ہے، کوئی وقت کا تقاضہ کہکر بدعتوں اور رسومات کی تائید خاموشی یا عملی کررہا ہے، کوئی صلح کل بنا ہوا واہ واہی بٹورنے کیلئے اور ہر دل عزیز بنے رہنے کی تڑپ میں دین کی تصویر مسخ کرنے کا سبب بنا ہوا ہے، اللہ اللہ عوام کی نادانی جہالت اور کم فہمی پر افسوس کروں یا خواص اور علماء کہلائے جانیوالے حضرات کی ہر دل عزیزی کی تڑپ پر ماتم کروں؟ جو پانی کے دھارے کے ساتھ ساتھ بہے جارہے ہیں خود بھی ڈوب رہے ہیں اور عوام کو ڈبانے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔۔۔۔ 

     یہ اس دنیاکی زندگی کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو پس پشت ڈال دیتی ہے ،ا س کے تقاضوباور ضروریات کے مطابق طرز عمل اختیار نہیں کرتی اور ان کے حصول کیلئے مسلسل ایثار و قربانی اور جد وجہد کرنے کیلئے کمر بستہ نہیں رہتی اس کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا اسی طرح یقینی ہوتا ہے جس طرح تیل ختم ہو جانے کے بعد چراغ کاگل ہوجانا یقینی ہوتا ہے ۔۔۔۔ 

    حدیث مبارکہ ہے:

    ’’مسلمان اور اس کے ایمان کی مثال ایک کھونٹے سے بندھے ہوئے گھوڑے کی سی ہے جو خواہ کتنا ہی اِدھر اُدھر گھومے پھرے لیکن اپنی رسی کی حد کے اندر رہتا ہے۔‘‘ لیکن ہم تو اپنی رسی کی حد سے باہر چلے گئے ہیں ۔ ہم اپنے دین کی رسی کو توڑ کر اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر گئے ہیں ۔ دنیا میں اس وقت اربوں کی تعداد میں مسلمان موجود ہیں مگر اس کے باوجود وہ اسلامی نظامِ ہائے زندگی جس پر وہ ایمان رکھتے ہیں کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ آج دنیا میں مسلمانوں کی پستی و ناکامی،ذلت و رسوائی، خواری و ناداری اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمان اپنے نصب العین اورمقصد زندگی سے ہٹ گئے ہیں اور قرآن و سنت سے بے بہرہ دور گمراہی و جہالت کی تارکیوں میں بھٹک رہے ہیں۔۔۔۔ 

    ہر مہذب اور باشعور قوم کا نظام ِ حیات اس کے بنیادی عقائد و نظریات ، اقدار و روایات، اصول و ضوابط اور نظریۂ حیات کا آئینہ دار ہوتاہے اس لئے اگر آج مسلمانوں میں اسلامی نظام ِ حیات رائج نہیں تو ماننا پڑے گا کہ انہوں نے اسلام کو محض زبانی دعوئوں اور ایمان کے کھوکھلے نعروں کے علاوہ اسے ایک دین ، ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کیا۔۔۔ 

کہتے ہیں وقت بدلتا رہتا ہے،بادشاہ ہمیشہ بادشاہ نہیں رہتا اور فقیر ہمیشہ فقیر نہیں رہتا وقت کسی کو بادشاہ بنانے کی طاقت رکھتا ہے وہ کسی کو فقیر بنانے کی بھی طاقت رکھتا ہے،،

      آج کے جو حالات ہیں اور جو حالات بنائے جا رہے ہیں ، اور پوری دنیا میں جس طرح جھوٹ کا سہارا لیکر اسلام کے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی ہے ، اور پھیلائی جارہی ہے ۔ یقیناً وہ قابلِ تشویش اور افسوس ناک ہے ۔ اور ہمارے ملک میں مسلمانوں کے خلاف جو حالات بنائے گئے ہیں ، اور جو بنائے جا رہے ہیں ، یقینا اس نے  ڈر اور خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ ایسے مشکل حالات سے نکلنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دو راستے بتائے ہیں ، جیساکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے پار نمبر 2 اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر

-----------------

    قیامت کے دن میدان محشر میں ایک ایسے آدمی کو بلایا جائے گا جو خوشحالی کی زندگی گزار رہا تھا ہر طرح کی نعمتیں اس کو حاصل تھی ، اس نے کبھی کوئی غم نہیں دیکھا، اس کو بلایا جائے گا اور جہنم میں ایک گوتا دیا جائے گا، اور اس کے بعد اس سے پوچھا جائے گا اے بندے کیا دنیا میں تو نے کوئی خیر دیکھی ہے کوئی نعمت دیکھی ہے تو وہ کہے گا واللہ میں نے کبھی کوئی خیر نہیں رہی کوئی نعمت نہیں دیکھی، خیر کیا ہوتی ہے نعمت کیا ہوتی ہے خوشی کیا ہوتی ہے مجھے تو معلوم ہی نہیں ہے 

اسی طرح ایک ایسی انسان کو بلایا جائے گا جو دنیا میں پریشان حال تھا اس نے بہت تکلیفوں میں زندگی گزاری تھی، اور بہت سخت آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس کو جنت میں غوطہ لگایا جائے گا اس کے بعد اس سے معلوم کیا جائے گا یہ بندے کیا تو نے دنیا میں کوئی پریشانی دیکھی ہے، تو کہے گا واللہ میں نے دنیا میں کوئی پریشانی نہیں دیکھی کوئی مصیبت نہیں دیکھی 

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی ہوا کا ایک جھوکا دنیا کے تمام مصیبتوں اور پریشانیوں کو بھلا دے گا اسی طرح جہنم کا ایک جھوکا دنیا کی تمام خوشحالیوں اور آرام کو بھلا دے گا ، اس لئے ہمیں اس بات کا یقین رکھنا چاہئیے کہ اصل نعمت آخرت کی نعمت ہے اور اصل پریشانی آخرت کی پریشانی ہے،

-----------------





Post a Comment

0 Comments