زمانہ جاہلیت

  

   خالق کائنات کے بعد الله تعالٰی کا ہمیشہ سے یہ طریقہ رہا ہیکہ جب بھی دنیا میں برائیاں پھیلنا شروع ہوئی، شرورو فتن کا عروج ہوا، اور شیطان نے لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایک نبی کو بھیج دیا تاکہ خدا کے بندوں کو خداکی طرف بلایا جائے اور ان کو شیطان سے بچایا جائے، الگ الگ وقتوں میں اللہ تعالیٰ الگ نبیوں کو بھیجتے رہے۔ سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو بھیجا۔ کبھی ابراھیم علیہ السلام کو بھیجا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے آخر میں جنابِ محمدور رسول اللہ ﷺکو بھیجا۔ اسلام سے پہلے عرب کی کیا حالت تھی اس پر ایک کرتے ہیں پھر آگے چلتے ہیں ۔۔۔ 

   اسلام سے پہلے  عرب کے لوگ  شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھے۔ اس وقت عرب میں کوئی حکومت کرنے والا  نہیں تھا۔ مختلف قبائل کے اپنے اپنے سردار تھے اور وہی ان کے حاکم تھے، پورا عرب، شرک اور بت پرستی  میں مبتلا تھا  ، ہر قبیلے نے اپنا اپنا خدا بناۓ ہوۓ تھے وہ اسی کو  اپنا معبود حقیقی سمجھتے تھے، اور اسی کو سجدہ کرتے تھے۔  وہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی کرتے تھے، اگر ان کے درمیان لڑائی ہوجاتی تو وہ لڑائی برسوں تک  چلتی رہ تی تھی   ، وہ لوگ مرنے سے پہلے اپنے بچوں کو لڑائی کرنے کی  نصیحت کرکے جاتے تھے،۔ ہر  ترف ظلم و ستم پہاڑ توڑے جا رہے تھے، نفرتوں عداوت کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ اور معصوم بچیوں کو زندہ درگور کیا جارہا تھا، اگر ان کے گھر لڑکی پیدا ہو جاتی تو اپنے منھ کو چھپا کر  گھوم تھے کہیں لوگوں کو معلوم نہ ہو جائے کہ یہی وہ آدمی ہے جس کے گھر لڑکی پیدا ہوئ ہے  جب تک لڑکی کو زندہ درگو نہ کردیتے  اس وقت تک ان کو سکون نہیں ملتا تھا    ۔۔۔۔   واقعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

   حضور ﷺ آۓ تو دنیا کو روشنی ملی۔ 

آپ آے تو اندھیرا ختم ہوا  ۔ 

آپ آۓ تو لوگوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ آیا، 

آپ آۓ تو لوگوں کو ان کے حقوق ملے۔ 

آپ اۓ تو عورتوں کو ان کے حقوق ملے ۔ 

آپ آۓ تو لوگوں کو اپنے پیدا ہونے کا مقصد معلوم ہوا ۔ 

آپ آۓ تو لوگوں کے اندر اخلاق و کردار آئے۔ 

    آپ ﷺک زندگی کے حالات اور اخلاق حسنہ  کھلی ہوئی کتاب کی طرح ہے جس کے ذریعے ہر انسان رہنمائی حاصل کرسکتا ۔۔ 

     الله تعالٰی نے قرآن مجید کی پہلی سورت میں انسانوں کو یہ دعا سکھائی ہے  ۔۔۔۔۔۔      اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جس پر تونے انعام کیا،  یہ انعام یافتہ کون لوگ ہیں جن کے نقشے قدم پر چلنے کا اللہ تعالی حکم دے رہے ہیں جن کو فالو کرنے کا اللہ تعالیٰ حکم دے رہے، یہ انبیاء علیہم السلام ہیں، اور ان کے پیروکار ہیں جو دنیا کے بہترین انسان ہیں ،۔۔ آپ ﷺکی پوری زندگی ہمارے لئے آئیڈیل اور نمونہ ہے، لیکن آپ ﷺکی زندگی کا وہ پہلو جس نے دوست اور دشمن  دونوں کے دلوں کو جیت لیا تھا، وہ ہیں اچھے اخلاق۔۔ 

آپ ﷺنے اخلاق حسنہ کی دولت سے تڑپتی ہوئی انسانیت کی غم کھاری کی۔ اپنے دشمنوں کو پتھر کے جواب میں پتھر نہیں دیا بلکہ فولوں کا گلدستہ💐💐💐💐 دیا ۔ نفرتوں عداوت کے اندھیرے میں پیاروں محبت کو روشن کیا۔ خاندانی نفرتوں عداوت کو ختم کرکے پیاروں محبت کا جھاڑ لگایا۔ 

       واقعہ    فتح مکہ

     اخلاق حسنہ کی بہترین مثال ہمیں فتح مکہ کے موقع ہر ملتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوتے ہیں، صحابہ کرام کی دس ہزار جمعیت آپ کے ساتھ ہے، صحابہ اعلان کرتے ہیں الیوم یوم الملحم آج بدلے کا دن ہے، آج جوش انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے۔   آج پچھلے مظالم کی بھڑکتی چنگاری کو ان کے خون  سے بجھانے کا دن ہے۔ آج کافروں کو ان کے ظلم کا بدلہ دۓ جانے کا دن ہے۔۔۔ 

   آپ نے کفار کی جانب دیکھا کہ تمام کفارہ مکہ سہمے بیٹھے ہیں ، تمام کفارہ مکہ ڈرا ہوا ہے۔  آج تمہیں اپنے ماضی پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، جاؤ ابو جہل کے لوگوں سے کہدو کہ عبداللہ کا یتیم تمہیں قتال کی بھٹی میں جھونک نے نہیں آیا ہے وہ تمہیں رحمت و شفقت کی چادر میں لپیٹنے آیا ہے، جاؤ مکہ کی ماں سے کہدو کہ آج تمہیں بیوہ نہیں کیا جائے گا تمہاری ممتا نہیں چھینی جاۓ گی،۔ مکہ کی بہنوں سے کہدو کہ آج تمہارے عزت نہیں لوٹی جاۓ گی  آج تمہارے سروں سے روپٹے نہیں اتارے جائنگے  آج بدلہ لینے کا دن نہیں ہے بلکہ آج معاف کرنے کا دن ہے۔یہ زمین و آسمان گواہ ہیں کہ  آپ نے ان تمام لوگوں کو معاف کر دیا جو آپ کے جانی دشمن تھے اور جن لوگوں نے صحابہ کرام پر ظلم کرکے ان کو مدینہ جانے پر مجبور کردیا تھا  آپ نے تمام لوگو کو معاف کردیا۔۔۔

   دنیا پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جب ایک ملک دوسرے پر حملہ کرتا ہے ، جو جیت تا ہے وہ ہارنے والے ملک کو تباہو برباد کردیتا ہے، وہاں کے شہروں کو تہس نہس کردیاجاتا ہے۔، وہاں کی فصلوں کو اجاڑ دیا جاتا ہے۔، وہان کے مال و دولت کو لوٹ لیا جاتا ہے۔ ، وہاں کے لوگوں کو غلام اور باندی بنالیا جاتا ہے۔۔۔ 

  آپ ﷺنے پور ے مکہ کو فتح کرلیا مگر کسی کا خون نہیں بہایا گیا، کسی کا مال نہیں لوٹا گیا، اور کسی چیز کو برباد نہیں کیا گیا۔۔۔ یہ ہیں آپ ﷺ کے اخلاق ان لوگوں کے ساتھ جو آپ کے جانی دشمن تھے۔۔۔ 

    جب زمین سخت ہوجاتی ہے تو اس میں کچھ بھی پیدا نہیں ہوتا اس زمین کو پیداوار بنانے کیلئے اس پر محنت کی جاتی ہے۔  پانی ڈالا جاتا ہے ہل جوتا جاتا تب وہ زمین نرم ہوتی ہے۔ جب زمین نرم ہوجاتی ہے تو اس میں ہر چیز پیدا ہو سکتی ہے اس میں چاول کی فصل بھی ہوسکتی یے، گیہوں کی فصل ہوسکتی ہے، دال کی فصل بھی ہوسکتی ہے۔ اور انسان جو چاہے پیدا کر سکتا ہے۔ اگر زمین سخت ہو جاۓ اور اسپر محنت نہ کی جاۓ تو تو وہاں پر کیکر کا درخت پیدا ہوجاتا ہے۔ کانٹے کا درخت پیدا ہوجاتا ہے۔ اور بیکار قسم جھاڑیاں پیدا ہوجاتی ہیں، پھر وہاں پر سانپ، بچھو ، اور دوسرے قسم کے موذی جانور رہنے لگتے ہیں ۔ پھر وہ زمین اتنی سخت ہوجاتی ہیکہ وہاں جانے پر  ڈر لگنے لگتا ہے ، اور اس کے آس پاس سے  گزرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

   اگر انسان کا دل سخت ہوجاۓ اور اس پر محنت نہ کی جاۓ  تو اس کے دل میں کفر بسنے لگتا ہے، نفاق بسنے لگتا ہے، شرک بسنے لگتا ہے، ظلم، سقاوت اور حیوانیات بسنے لگتی ہے۔ 

   اگر انسان کے دل پر محنت کی جاۓ تو  اس کا دل نرم ہوجاتا ہے، پھر اس کے دل پر شریعت کا ہر پودہ اگنے لگتا ہے، اس کے دل میں تقوی آتا ہے، توکل آتا ہے،  صبر آتا ہے، تحمل آتا ہے، الله اس کے رسول کی محبت آتی ہے، قرآن و حدیث کی محبت آتی  ، چوری ، ڈکیتی ، چغل خوری ، اور اس جیسے گناہوں سے دور رہنے لگتا ہے۔ پھر وہ ایسا ہوجاتا ہیکہ اس کو دیکھ کر الله یاد آنے لگتا ہے۔ ایسی ہی محنت آپ ﷺنے صحابہ کرام کے دلوں پر کی تھی۔ پھر صحابہ کرام جان دینے کیلئے تیار تھے مگر  اسلام چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ 

   زمانہ جاہلیت میں جہاں بہت ساری  خرابیاں پائی جاتی تھیں، ان میں سے ایک خرابی  چوری ڈکیتی اورلوٹ مار کی تھی، جب لوگ سفر کیلئے نکتے تو پورے قافلے کو لوٹ لیا جاتا تھا، وہ لوگ مالو دولت اور روپئے پیوسو کو تو لوٹتے ہی تھے مگر  مگر انسانوں کو بھی لوٹ کر ان کو بازاروں میں بیچ دیا کرتے تھے۔  ایسے ہی ایک واقعہ زید بن حارثہ زضی الله عنہ کے ساتھ پیش آیا۔۔

      واقعہ       زید بن حارث رضی الله عنہ

    ہمارے اخلاق ایسے ہونے چاہئے کہ لوگ ہم سے محبت کریں ہمارے اخلاق ایسے نہیں ہونے چاہئے کہ لوگ ہم سے نفرت کریں۔  آج ہمیں اپنے اخلاق کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، اپنے کردار اور اپنے معاملات کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے ، اپنے گھر والوں کے ساتھ، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ، اور اپنے دوستوں کے ساتھ، گھر میں جاتے ہوئے گھر میں سلام کریں، کھانے میں نمک یا مرچ زیادہ ہونے پر مارۓ مت،۔ لوگوں سے ملتے ہوئے مسکراتے ہوئے ملیں۔ بات کرتے ہوئے نرمی اختیار کریں۔ اپنے اخلاق و کردار کو ایسے بنائے کہ لوگ مرنے کے بعد بھی اچھائی کے ساتھ ہمیں یاد کریں۔ ہمارے اخلاق ایسے نہیں ہونے چاہئیے کہ لوگ مرنے کے بعد بھی ہمیں برائ کے ساتھ یاد کریں۔

     









Post a Comment

0 Comments