اس دنیا میں حق و باطل کا ہمیشہ سے تصادم ٹکراؤ اور کشمکش چلتا رہا ہے ، اور یہ کشمکش آج بھی جاری ہے اور شاید کہ قیامت تک جاری رہے گا، باطل کی ہمیشہ سے یہ خواہش اور تمنا رہی ہیکہ وہ حق کو ہمیشہ ہمیش کیلئے اس دنیا سے ختم کردے ، لیکن الله تعالٰی حق کو ہمیشہ فتح اور نصرت سے نوازتا رہا ہے ، اور حق کی ہمیشہ مدد کرتا رہا ہے۔ اگر کبھی ایمان والوں کو تکلیف پہونچی ہے، یا ان کو چوٹ لگی ہے تو وہ آزمائش کا نتیجہ تھا یا پھر الله کے حکموں کو توڑ نے کا نتیجہ تھا۔
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ پارہ 3۔ سورہ آل عمران۔ آیت 139 ،، ہمت مت ہارو اور نہ ہی غم کرو اور تم ہی غالب رہو گے، اگر تم پورے مؤمن رہے۔۔
وَعَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ: ترجمہ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا زمانہ ائے گا جس میں اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا،اور قران کے صرف حروف باقی رہ جائیں گے،ان کی مسجد ہے بہت عالی شان ہوں گی لیکن ان کی نمازوں میں خشوع اور خضوع نہیں ہوا۔
میں نے ابھی آپ حضرات کے سامنے قران کریم کی ایک ایت تلاوت کی ہے اور اس کا ترجمہ کیا ہے، اسی طرح میں نے ایک حدیث پڑھی ہے اور اس کا ترجمہ کیا ہے،میں اس آ یت اور اس حدیث کے متعلق کچھ باتیں آپ کے سامنے بیان کرنے کی کوشش کروں گا، اور اس کے بعد میری گفتگو ختم ہو جائے گی،ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی مجھے صحیح صحیح کہنے،اور اس پر ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ پارہ 3۔ سورہ آل عمران۔ آیت 139
: ہمت مت ہارو اور نہ ہی غم کرو اور تم ہی غالب رہو گے، اگر تم پورے مؤمن رہے ۔۔۔قرآن کریم کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ مسلمانوں کی کامیابی نیک اعمال کے ساتھ متصف ہیں۔ اگر مسلمانوں کا تعلق خدا اور اس کے رسول کے ساتھ مستحکم ، اور مضبوط رہا تو عزت و شرافت سر بلندی اور کامیابی ہمارے لئے ہے ، اگر خدا نا خاستہ ہمارا تعلق اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ مستحکم اور مضبوط نہیں رہا اور ہمارا تعلق اللہ اور اس کے رسول سے ٹوٹ گیا تو پریشانی مصیبت ذلت و رسوائی اور ناکامی ہمارے لئے ہے ۔
جب تک مسلمان خدا کے قانون کے مطابق چلتے رہے اور مسلمانوں نے اپنے آپ کو خدا کے حکم کے تابع کررکھا تھا اس وقت تک مسلمانوں کا عروج تھا مسلمان فاتح قوم کہلایا کرتی تھی مسلمانوں کا نام ان کر غیروں کے تخت و تاج لرزا اٹھ تے تھے لیکن جب سے مسلمانوں میں عیش و عشرت اور خاہش نفسانی کی پیروی کا سلسلہ شروع ہوا حکم الاہی اور سنت نبوی کا کوئی پاس و لحاظ نہ رہا ، اور ہمارے معاشرے سے اسلامی تہذیب و تمدن ختم ہوتا گیا، اور ہم اللّٰہ کے حکم کو توڑتے رہے ، نبی کے طریقو کو چھوڑتے رہے ،نبی کی سنتوں کو پیرو تلے روندھ تے رہے، نمازوں سے دور ہوتے رہے بھاگتے رہے،اور روزوں کو چھوڑ تے رہے، اللہ کے بتائے ہوئے راستوں کو چھوڑ کر۔ شیطان کے راستوں پر چلتے رہے ،اور گناہوں پر گناہ کرتے رہے ، تو ہم زندگی کی ہر موڑ پر اور زندگی کے ہر قدم پر مصیبت کا سامنا کرنے پر مجبور ہوگئے
مگر آج کا مسلمان جن حالات و مشکلات اور مصائب کا شکار ہیں اور جن پریشانیوں کا سامنا کرنے پر وہ مجبور ہے یہ ہماری انتہائی درجے کی ذلت و رسوائی کی حالت بیان کر رہی ہے۔ کیا کبھی ہم نے اس کے بارے میں غورو فکر کیا ؟ جب ہم اس کے بارے میں غورو فکر کرتے ہیں تو ہمیں معلوم چلتا ہیکہ اس کی بہت سارہ وجہ ہوسکتی ہیں، مگر ایک بڑی وجہ الله تعالٰی کے بنائے ہوئے اصولوں کو چھوڑ کر من مانی زندگی گزار نا ہے، الله اور اس کے رسول کی کھلم کھلا نافرمانی کرنا ہے۔ آج ایسے کونسے گناہ ہیں جو ہماری زندگی سے وابستہ نہیں ہے، آج ایسے کون سے گناہ ہیں جن کو ہم انجام نہیں دے رہے ہیں۔آج ایسے کونسے گناہ کبیرہ ہیں جن کو ہم نہیں کررہے ہیں آج ایسے کون سے برے اعمال ہیں جو ہماری زندگی سے دور ہیں۔ الله کے حکموں کو توڑ کر، نبی کے طریقے کو چھوڑ کر ہم الله تعالٰی سے مددو نصرت کی امید رکھتے ہیں ۔۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد و نصرت کا وعدہ کیا ہے ، قرآن کریم میں ،، تم ہی سر بلند رہو گے تم ہی اس دنیا کے مالک اور بادشاہ رہو گے دنیا کی کوئی طاقت و قوت تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، شیر تم سے ڈر سکتے ہیں، چیتے تم سے کپکپا سکتے ہیں، دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت تمہارا غلام اور فرمانبردار بن سکتی ہے، ،بس ایک شرط ہے کہ تم خدا کے فرمانبردار بن جاؤ ، واقعہ۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو دیکھا جو شعر پر بیٹھا ہوا تھا ،وہ شیر کا کان انیٹھ رہا ہے، اور جدھر چاہتا ہے چلاتا ہے شیر خاموشی کے ساتھ اس کی تابعداری کر رہا ہے، شیخ سعدی کو دیکھ کر کے بڑا تعجب ہوا ، شیر جیسا خونخوار جانور انسان کی سواری بنی ہوئی ہے، شیر پر بیٹھے ہوئے شخص نے کہا اے سعدی تم تعجب کیوں کر رہے ہو یہ تو شیر ہیں دنیا کہ ہر چیز تمہاری تابعدار بن سکتی ہے بس ایک شرط ہےکہ تم اپنے آپ کو خدا کے حکم کے سامنے جھکا دوں،دنیا تمہارے سامنے جھک جائے گی
وَعَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریب ہے کہ لوگوں پر ایک ایسا دور آئے، جب اسلام کا صرف نام کا باقی رہ جائے گا۔۔یعنی اس کی روح ختم ہوجائے گی، مسلمان اپنی اسلامی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرینگے، مسلمان اسلامی طریقے کو چھوڑ کر کے غیرو کے طریقے کو اختیار کرتے چلے جائیں گے۔ مسلمان اسلامی لباس کو چھوڑ کرکے ،غیرو کے لباس کو اختیار کرتے چلے جائیں گے ۔مسلمان اسلامی شعار کو چھوڑ کرکے غیر و کے شعار کو اختیار کرتے چلے جائیں گے ۔ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا، مسلمان اسلامی شعار سے دور ہو کر غیروں کے طریقے کو اختیار کرتے چلے جائنگے۔۔ چنانچہ آج کے مسلمان غیر و کے طریقے کو اختیار کرتے چلے جارہے ہیں، اور برائی کو گلے سے لگاکر اس پر عمل پیرا ہیں،،۔۔
جسطرح یہودیوں نے سمجھا کہ ہماری ایک قوم ہے۔ جس کا نام ہیود، جس طرح عیسائیوں نے سمجھا کہ ہماری ایک قوم ہے۔ جس کا نام عیسائی ہے۔ جس طرح سکھوں نے سمجھا کہ ہماری ایک قوم ہے جس کا نام سکھ ہے۔ اسی طرح مسلمانوں سمجھ لیا کہ ہماری ایک قوم ہے جسکا نام مسلم ہے۔ لیکن مسلمان ہونے کے بعد ہم پر کونسی ذمہ عائد ہوتی ہیں، ہمیں کونسے اعمال کرنے چاہئے اور کو نسے اعمال سے گریز کرنا چاہئے، شریعت میں کونسی چیزیں جائز اور حرام ہیں اسکی بالکل بھی خبر نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہیکہ آج ہم صرف نام کے مسلمان باقی رہ گئے ہیں مسلمانوں کی صفات تک باقی نہیں رہی وہ جوشو ہمت وہ جذبہ اطاعت اور اخلاص و للا ہیت ہمارے اندر نہیں رہا،، قوانین اسلام سے منھ موڑ کر اور اسلام کے اصولوں ضوابط کو توڑ کر آج ہم مسلمان ہونے کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں۔ کیونکہ نماز ہم نہیں پڑھتے، روزے ہم نہیں رکھتے، زکات ہم نہیں دیتے ، قارون کی طرح مال کو اکھٹا اور جمع کرکے ہم رکھتے ہیں، جوۓ بازی، قمار بازی، اور شراب نوشی یہ ہمارا محبوب عمل بن چکا ہے۔ سود کا لینا دینا سود کا کاروبار کرنا یہ ہماری زندگی کی بہترین تجارت بن چکی ہے۔اسلامی رہن و سہن کو چھوڑ کر غیروں کے طریقوں کو اختیار کرنا یہ ہماری زندگی کی خوشی بن چکی ہے۔ بھائ چار گی کو ختم کرکے پیاروں محبت کی جڑوں کو اکھاڑ کر نفرتوں عداوت کو بڑھانا یہ ہماری زندگی کا مشن بن چکا ہے۔ مالو دولت کے اتنے حریص کہ حرام اور حلال کی تمیز ہی نہیں، عام زندگی میں لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی ، اپنوں کے ساتھ سنگ دلی ، خود غرضی اورمطلب پرستی ہمارے نس نس میں بھری ہوئی ہے۔۔۔
تاریخ کے صفحات پر ایسے ہزاروں واقعات موجود ہیں جس میں مسلمانوں نے ہر میدان میں فتح حاصل کی ہے، وہ پہاڑوں میں گئے تو پہاڑوں نے ان کا بڑھ کر کے استقبال کیا،وہ سمندروں میں گئے تو سمندر نے ان کا استقبال کیا، او جنگلوں میں گئے تو جنگلوں نے بڑھ کر ان کا استقبال کیا،
خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت چل رہا ہے،اسلام تیزی سے پھر رہا ہے ، افریقہ کے کچھ علاقے بھی فتح ہو چکے ہیں،وہاں کے در و دیواروں پر اسلامی جھنڈا لہرا رہا تھا ، اس وقت دشمنان اسلام نے،اسلام کے راستے کو کمزور کرنے اور وہاں کے سیدھے سادھے مسلمانوں کو بہکانا اور ورغلانا شروع کر دیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی سرکوبی کے لئے اور حالات کو معمول پر لانے کے لئے عمر بن عاص رضی اللہ عنہ کو بھیجا، حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ نے وہاں جا کر کے حالات کا جائزہ لیا،اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد، یہ طے ہوا کہ یہاں پر ایک اسلامی چھاؤنی بنائی جائے ، اب باتیں ہونے لگی کہ اسلامی چھونی کہاں بنائی جائے،الگ الگ لوگوں نے الگ الگ مشورے دئیے ،کسی نے کہا کہ شہر کے درمیان میں چھاؤ نہیں بنائی جائے،کسی نے کہا کہ شہر کے کنارے پر چھاونی بنائی جائے،کسی نے کہا کہ یہ محل چھاؤنی بنانے کے لئے بہترین جگہ ہے، لیکن اسلامی لشکر کے سردار نے کہا کہ چھاؤنی افریقہ کے جنگل میں بنائی جائے گی، افریقہ کے لوگ کہنے لگے ہیں یہ لوگ تو بڑے بیوقوف معلوم ہوتے ہیں،افریقہ کا جنگل تو ہے جہاں انسان دن میں جاتے ہوئے ڈرتا ہے اگر کوئی بھولے سے وہاں چلا جائے تو دوبارہ واپس نہیں آ سکتا، وہاں بڑے بڑے اژد ہے، دہاڑتے ہوئے شیر، ڈکارتے ہوئے چیتے اور قسم کی موذی جانور رہتے ہیں، بھلا وہاں پر چھاونی کیسے بنائی جائے گی، لوگوں نے منع کیا لیکن فیصلہ ہو چکا تھا، مسلمان اپنی جماعت کو لے کر افریقہ کے جنگل کی طرف روانہ ہوئے، افریقہ کے کچھ وباش قسم کے لوگ بھی ان کے پیچھے چلے گئے تماشہ دیکھنے کی غرض سے، وہ چلتے رہے یہاں تک کہ جنگل کے کنارے پہنچ کر امید لشکر میں ایک اواز لگائی کہ جنگل کے رہنے والو چرندو پرندوں درندوں اور موذی جانوروں،اج مہمان رسول کو اور غلامان اسلام کو اس جنگل کی ضرورت ہے، مہمان رسول ہونے کے واسطے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اس جنگل کو خالی کر دو، تاریخ اٹھا کر دیکھو آسمان گواہ ہے، زمین گواہ ہے، آس پاس کا علاقہ گواہ ہے، سائنس دان حیران و پریشان ہیں کہ وہ کون سی طاقت تھی، وہ کون سی آواز تھی جس آواز نے ان جانوروں کو اس جنگل کو خالی کرنے پر مجبور کر دیا تھا، انہیں کیسے معلوم چلا کہ ہم سے جنگل خالی کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے تاریخ کے صفحات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ،شیر چیتے بھیڑئیے اور دوسرے موذی جانور اپنے بچوں کے ساتھ ایسے جا رہے تھے جیسے کہ انسان جاتے ہیں ، اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا جنگل خالی ہو گیا،،،، یہ ایمان کی طاقت و قوت تھی اگر اج بھی وہ ایمان پیدا ہو جائے، اور یقین کی وہ کیفیت ہمارے اندر آ جائے ، تو اللہ تعالی کی مدد و نصرت ہمارے ساتھ بھی ایسی ہی ہوگی جیسا کہ صحابہ کرام کے ساتھ ہوا کرتی تھی،
اللہ تعالی ہمیں ایمان کامل کی دولت سے مالا مال فرمائے،اور ہم مومن کامل بن جائیں گے،آمین یا رب العالمین
اپنے آغاز اور اپنے انجام سے بے خبر انسان ۔ اپنے مالک اور اپنے خالق سے کوسوں دور رہ نے والا انسان، اور اپنی خواہشات کے پیچھے سرگردہ رہنے والا انسان ۔ خوشیوں تلاش میں، اور وقتی طورپر سکون حاصل کرنے کیلئے، ظالموں اور مجرموں کی ایک ایسی بھیڑ میں کھو گیا ہے۔ جہاں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے، جہاں ہر طرف موت ہی موت ہے۔ جہاں ہرطرف ذلت ہی ہی ذلت ہے۔اور اس ذلت کا زندہ نمونہ آج کی مسلم قوم ہے ۔۔۔۔۔ آج ہم اپنی کامیابی دنیا کے اندھیروں میں تلاش کر رہے ، حالانکہ الله تعالٰی نے ہماری کامیابی ایمان کی روشنی میں رکھی ہوئی ہے
وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ
یعنی قرآن اشاعت بھی خوب ہوگی اس کی خریدوفروخت بھی کثرت سے ہوگی اس کو پڑھنے اور پڑھانے والے بھی بہت زیادہ ہونگے مگر قرآن کو اپنی زندگی میں بسانے والے قرآن کے احکام پر عمل کرنے والے بہت ہی کم لوگ رہ جائنگے
میرے دوستوں!! آج ہم اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھیں اپنی زندگی میں جھانک کر دیکھیں کہ قرآن ہماری زندگیوں کتنا داخل ہے اور کن کن امور میں داخل ہے اگر کوئی قرآن پڑھتا ہے تو اسلئے کہ اس کے مرنے والے کی بخشش ہو جاۓ ، کوئی قرآن پڑھتا ہے تو اسلئے کہ بزنس اور کاروبار میں اضافہ ہونے لگے ، کوئی قرآن پڑھتا تو اس لئے کہ اس کے گھر میں خیروبرکت ہونے لگے ، کوئی قرآن کو تعویز بناکر گلے میں ڈال لیتا ہے تاکہ تاکہ شیطان جنات اور دوسرے بلاؤں سے محفوظ رہ سکے، کوئی قرآن کو خوبصورت گلاف میں سجاکر کر گھر میں رکھ دیتا ہے تاکہ چوروں او ڈاکوؤں سے گھر محفوظ رہ سکے، میرے دوستوں!! کیا قرآن کو اس لئے نازل کیا گیا تھا کہ اس کو خاص موقع پر پڑھا جائے ۔
آ ج ہمارے معاشرے میں قرآن اس وقت پڑھا جاتا ہے ، جب کوئی مرجاتا ہے،۔ قرآن اس وقت پڑھا جاتا ہے ، جب بزنس اور کاروبار اچھا نہیں چل رہا ہو ، قرآن اس وقت پڑھا جاتا ہے، جب گھر میں پریشانیاں آرہی ہو ، آج ہم نے قرآن کو رسم بنا دیا ہے۔
میرے نو جوان دوستوں!! کیا قرآن کو اسی کیلئے نازل کیا گیا تھا کہ اس کو خاص خاص موقع پر پڑھا جائے آج ہم نے قرآن کو رسم بنادیا ہے
0 Comments
آپ یہاں اپنی رائے کا اظہارکرسکتے ہیں، آپکی کی راۓ ہمارے لئے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آپ کو پوشیدہ رکھا جائے گا 👇👇👇👇