بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم
قارئین کرام !!! چودہ سو تینتالیس 1443 کا ہجری سال ختم ہو کر چودہ سو چوالیس 1444 کا سال شروع ہوگیا ہے۔ ایک سال کا ختم ہونا اور نئے سال کا شروع ہونا یہ زندگی کے مسافر کی وہ منزل ہے جہاں کچھ دیر ٹہر کر پچھلے سفر کی حصول یابیوں اور نامراد یوں پر نظر ڈال کر اگلی منزل کے لئے عزمِ سفر کا سامان قوت فراہم کیا جاسکتا ہے، اور گزری زندگی کہ تلافیوں کا عزم ، اور سنبھل سنبھل کر بقیہ عمر گزارنے کا خوابیدہ احساس تازہ کیا جاسکتا ھے، تو آئیے کچھ دیر خلوت نشیں ہو کر عمر رفتہ کو آواز دیں، زندگی کے شب و روز اور نشیب و فراز کا جائزہ لیں، اور تازہ جزبہ، نئے احساس اور زندہ ولولہ کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کریں،
کیونکہ :::::: اس گزر گاہِ حیات میں قدم رکھنے والا، راہِ حیات کا ہر مسافر، پیدائش اور موت کے درمیان کے معمولی غیر یقینی اور بے اندازہ وقفہ کا جو تو شہ اپنے ساتھ لاتا ہے وہی اس کی عمر مستعار ہے اور اسی کا نام زندگی ہے یہ خداوند قدوس کی بے بدل نعمت اور مہتم بالشان امانت ہے، ہر وقت فنا کی طرف رواں اس زندگی کا ہر ہر پل اتنا قیمتی ہے کہ گزر جانے کے بعد کسی بھی طرح واپس نہیں لایا جا سکتا، دولت کے ہزارہا خزانے بھی اگر ضائع ہوجائیں تو جدو جہد اور کفایت شعاری کے ذریعہ پھر سے حاصل کئے جا سکتے ہیں، خواندہ یاد نہ رہ پائے تو مطالعہ و تکرار کے ذریعہ یاد کرلینا ممکن ہے، صحت خراب ہو جائے تو دعا و دوا اور پرہیز و احتیاط کے ذریعہ پھر درست ہو سکتی ھے، لیکن زندگی کے لمحات وہ قیمتی سرمایہ حیات ہیں جو ایک مرتبہ ضائع ہو جانے کے بعد پھر کبھی ہاتھ نہیں آتے، اسی لئے قرآن و حدیث اور اکابر و اسلاف کے نقوشِ حیات بڑی تاکید سے زندگی کے ایک ایک لمحہ کہ قیمت وصول کرنے اور دینی مشاغل و مقاصد میں ہی اسے صرف کرنے کی تلقین کرتے ہیں،
زندگی کا یہ سفر بہت مختصر ہے سفینۂ حیات بہت جلد ساحل سے جا لگتا ہے، لیکن جن افراد و اقوام نے متاع حیات کے ایک ایک لمحہ کی قدر کی اور انہیں کارآمد بنایا انہوں نے اس مختصر مددت میں دنیا پر اپنی فتوحات کا پر چم لہرایا، بڑی بڑی انقلابی تحریکوں کو وجود بخشا، حیرت انگیز ایجادات کا تحفہ دیا فضاؤں پر قبضہ کرلیا، ستاروں پر کمندیا ڈال دیں، عظیم و ضخیم تصنیفات کی شکل میں علم و آگہی کے وہ آبشار جاری کرگئے جن سے ہزارہا تشنہ لب صدیوں سے سیراب ہو رہے ہیں، اور ایسے ایسے محیر العقول کارنامہ انجام دئے جنھیں دیکھ کر آج عقلیں حیران ہیں، اور انسانیت انگشت بدنداں ہے، کہ یہ سب کچھ اس قلیل عرصہ میں کیونکہ کرممکن ہو سکا، انھوں نے متاعِ وقت کی قدر کی ، ہر ہر سانس کو قیمتی بنایا، تو انکی زندگی میں برکتیں ظاہر ہوئیں، وقت انکا قدر داں ہوا، اور زمانہ نے انکی قدم بوسی کو باعث شرف سمجھا،
اس کے برخلاف جن اشخاص وملل نے وقت کو برباد کیا، وقت نے بھی انہیں برباد کر دیا، انہوں نے لمحات زندگی کی بیش بہا دولت کو اندھا دھند لٹا دیا، تو وہ خود بھی لٹ گئے، وقت کے ضیاع کے جرم میں ان کی صلاحیتیں سلب کر لی گئیں، ان کے ہاتھوں میں کشکول گدائی تھما دیا گیا، گلے میں شکست و ریخت اور غلامی کا طوق ڈال دیا گیا، پاؤں میں حسرت و افسوس اور محرومیوں کی بیڑیاں پہنا دی گئیں، اور دنیا کے نقشہ پر صرف انکا ناکارہ وجود ہی باقی رہ گیا، وہ عمرِ نوح پا کر بھی کچھ نہ کر سکے، تہی دامن آئے تھے اور تہی دامنی کے ساتھ واپس لوٹ گئے ، زندگی کے گنج گراں مایہ سے نہ خود استفادہ کرسکے اور نہ ہی انسانیت کے استفادہ کے لئے کچھ چھوڑ گئے،،،،، افسوس صدہا افسوس ایسی زندگی پر، کہ ایسے حَسَّاس موقع پر، جب زندگی کی کتاب سے ایک سال کم ہوا، ہمیں غوروفکر کرنا چاہیے تھا لیکن شیطان کی پیروی اور مغرب کی اندھی تقلید نے ہمیں گناہوں، لغو وعبث کاموں اور خلاف شریعت خوشیاں منانے میں مبتلاکیے ہیں جوکہ نادانی وبیوقوفی کےسواکچھ نہیں۔ ،،،،،، فاعتبر یا أولی الالباب ،،،
0 Comments
آپ یہاں اپنی رائے کا اظہارکرسکتے ہیں، آپکی کی راۓ ہمارے لئے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آپ کو پوشیدہ رکھا جائے گا 👇👇👇👇