واقعات کی دنیا


     خاتمہ بالخیر کا ایک سبق آموز واقعہ .

   ایک استادا پنے شاگردوں کو عقیدہ توحید کی تعلیم دے رہے تھے ۔ انہیں کلمہ لا الہ الا اللہ کا مفہوم اور اس کے تقاضے سمجھا رہے تھے ۔ایک دن کا واقعہ ہے کہ ایک شاگرد اپنے استاد کے لیے ایک طوطا بطور تحفہ لے کر حاضر ہوا۔ استاذ کو پرندے اور بلی پالنے کا بڑا شوق تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ استاد کو اس طوطے سے بھی بڑی محبت ہو گئی ۔چنانچہ وہ اس طوطے کو اپنے درس میں بھی لے جایا کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ طوطا بھی " لا الہ الا اللہ" بولنا سیکھ گیا ۔ پھر کیا تھا طوطا دن رات لا الہ الا اللہ بولتا رہتا تھا۔

   ایک روز شاگردوں نے دیکھا کہ ان کے استاذ پھوٹ پھوٹ کر رو ر ہے ہیں ۔ وجہ دریافت کی گئی تو استاذ فرمانے لگے : افسوس! " میرا طوطا آج مر گیا " شاگردوں نے کہا : آپ اس کے لیے کیوں رو ر ہے ہیں ؟ اگر آپ چاہیں تو ہم دوسرا اس سے خوبصورت طوطا آپ کو لا دیتے ہیں ۔

   استاذ نے جواب دیا : میرے رونے کی وجہ یہ نہیں ۔ بلکہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ جب بلی نے طوطے پر حملہ کیا تو اس وقت طوطا زور زور سے چلائے جارہا تھا یہاں تک کہ وہ مر گیا ۔ حالانکہ وہی طوطا اس سے پہلے لا الہ الا اللہ کی رٹ لگائے رہتا تھا۔ مگر جب بلی نے اس پر حملہ کیا تو سوائے جیخنے اور چلانے کے کچھ اور اس کی زبان سے نہیں نکلا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ "لا الہ الا اللہ دل سے نہیں صرف زبان سے کہتا تھا۔

  آگے استاد فرماتے ہیں : مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ہمارا حال بھی اس طوطے جیسا نہ ہو۔ یعنی ہم زندگی بھر صرف زبان سے لا الہ الا اللہ کہتے رہیں اور موت کے وقت اسے بھول جائیں اور ہماری زبان پر جاری نہ ہو۔

  اس لیے کہ ہمارے دل اس کلمے کی حقیقت اور اس کے تقاضے سے نا آشنا ہیں۔ یہ سننا تھا کہ سارے طلباء بھی رونے لگے ،

            جھوٹ اور لالچ کا انجام 

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے کر کسی سفر پر نکلے، راستے میں ایک جگہ رکے اور شاگرد سے پوچھا کہ :

تمہاری جیب میں کچھ ہے؟ شاگرد نے کہا :میرے پاس دو درہم ہیں.حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی جیب سے ایک درہم نکال کر اسے دیا اور فرمایا :یہ تین درہم ہوجائیں گے، قریب ہی آبادی ہے، تم وہاں سے تین درہم کی روٹیاں لےآؤ۔ وہ گیا اور تین روٹیاں لے لئے، راستے میں آتے ہوئے سوچنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ نے تو ایک درہم دیا تھا اور دو درہم میرے تھے جبکہ روٹیاں تین ہیں، ان میں سے آدھی روٹیاں حضرت عیسیٰؑ کھائیں گے اور آدھی روٹیاں مجھے ملیں گی، لہٰذا بہتر ہے کہ میں ایک روٹی پہلے ہی کھا لوں، چنانچہ اس نے راستے میں ایک روٹی کھالی اور دو روٹیاں لے کر حضرت عیسیٰؑ کے پاس پہنچا۔ آپ نے ایک روٹی کھالی اور اس سے پوچھا، تین درہم کی کتنی روٹیاں ملی تھی؟ اس نے کہا دو روٹیاں ملی تھی ایک آپ نے کھائی ایک میں نے کھائی ،

حضرت عیسیٰؑ وہاں سے روانہ ہوئے، راستے میں ایک دریا آیا، شاگرد نے حیران ہو کر پوچھا ائے اللہ کے نبی، ہم دریا عبور کیسے کریں گے؟ جبکہ یہاں تو کوئی کشتی نظر نہیں آتیحضرت عیسیٰؑ نے فرمایا گھبراؤ مت، میں آگے چلوں گا تم میری عبا کا دامن پکڑ کر میرے پیچھے چلتے آؤ، خدا نے چاہا تو ہم دریا پار کرلیں گے، چنانچہ حضرت عیسیٰؑ نے دریا میں قدم رکھا اور شاگرد نے بھی ان کا دامن تھام لیا، خدا کے اذن سے آپ نے دریا کو اس طرح پار کر لیا کہ آپ کے پاؤں بھی گیلے نہ ہوئے،  شاگرد نے یہ دیکھ کر کہا میری ہزاروں جانیں آپ پر قربان آپ جیسا صاحب اعجاز نبی تو پہلے مبعوث ہی نہیں ہوا۔ عسیٰ علیہ السلام نے فرمایا  یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا؟ اس نے کہا جی ہاں، میرا دل نور سے بھر گیا، پھر آپ نے فرمایا  اگر تمہارا دل نورانی ہوچکا ہے تو بتاؤ روٹیاں کتنی تھی؟ اس نے کہا :حضرت روٹیاں بس دو ہی تھی۔

    پھر آپ وہاں سے چلے، راستے میں ہرنوں کا ایک غول گزر رہا تھا، آپ نے ایک ہرن کو اشارہ کیا، وہ آپ کے پاس چلا آیا، آپ نے ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا اور شاگرد کو بھی کھلایا، جب دونوں گوشت کھا چکے تو حضرت عیسیٰؑ نے اس کی کھال پر ٹھوکر مار کر کہا  اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا، وہ ہرن زندہ ہو گیا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا دوسرے ہرنوں سے جا ملا۔ شاگرد یہ معجزہ دیکھ کر حیران ہو گیا اور کہنے لگا : اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے آپ جیسا نبی اور معلم عنایت فرمایا ہے،۔ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا،۔ یہ معجزہ دیکھ کر تمہارے ایمان میں کچھ اضافہ ہوا۔  شاگرد نے کہا :اے اللہ کے نبی، میرا ایمان پہلے سے دوگنا ہو چکا ہے۔ آپ نے فرمایا  پھر بتاؤ کہ روٹیاں کتنی تھی، شا گرد نے کہا حضرت روٹیاں دو ہی تھی۔

   دونوں راستہ چلتے گئے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پہاڑی کے دامن میں سونے کی تین اینٹیں ملی ایک اینٹ میری ہے اور ایک اینٹ تمہاری ہے اور تیسری اینٹ اس شخص کی ہے جس نے تیسری روٹی کھائی،  یہ سن کر شاگرد شرمندگی سے بولا  حضرت تیسری روٹی میں نے ہی کھائی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس لالچی شاگرد کو چھوڑ دیا اور فرمایا  تینوں اینٹیں تم لے جاؤ،  یہ کہہ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہاں سے روانہ ہوگئے اور لالچی شاگرد اینٹوں کے قریب بیٹھ کر سوچنے لگا کہ انہیں کیسے گھر لے جائے۔

اسی دوران تین ڈاکو وہاں سے گزرے انہوں نے دیکھا، ایک شخص کے پاس سونے کی تین اینٹیں ہیں، انہوں نے اسے قتل کر دیا اور آپس میں کہنے لگے کہ اینٹیں تین ہیں اور ہم بھی تین ہیں، لہٰذا ہر شخص کے حصے میں ایک ایک اینٹ آتی ہے۔ 

اتفاق سے وہ بھوکے تھے، انہوں نے ایک ساتھی کو پیسے دیئے اور کہا کہ  شہر قریب ہے تم وہاں سے روٹیاں لے آؤ، اس کے بعد ہم اپنا اپنا حصہ اٹھالیں گے، وہ شخص روٹیاں لینے گیا اور دل میں سوچنے لگا اگر میں روٹیوں میں زہر ملا دوں تو دونوں ساتھ مر جائیں گے اور تینوں اینٹیں میری ہو جائیں گی، ادھر اس کے دونوں ساتھوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اگر ہم اپنے اس ساتھی کو قتل کر دیں تو ہمارے میں حصہ میں سونے کی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ آئے گی۔ جب ان کا تیسرا ساتھ زہر آلود روٹیاں لے کر آیا تو ان دونوں نے منصوبہ کے مطابق اس پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا، پھر جب انہوں نے روٹی کھائی تو وہ دونوں بھی زہر کی وجہ سے مر گئے، واپسی پر حضرت عیسیٰؑ وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ اینٹیں ویسی کی ویسی رکھی ہیں جبکہ ان کے پاس چار لاشیں بھی پڑی ہیں، آپ نے یہ دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھری اور فرمایا :

دنیا اپنی چاہنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے۔

📕 انوار نعمانیہ صفحہ 353

  آنسو کی قیمت سمندر کے پانی سے زیادہ قیمتی ہے

   اللہ رب العزت کو انسان کے ندامت کے آنسو بہت پسند ہیں، اگر انسان اللہ رب العزت کے سامنے ایک آنسو بھی بہا دے تو اللہ رب العزت اس کے اگلے پچھلے سارے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں، حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ یا اللہ اس دنیا کے اندر سب سے زیادہ مبغوض ترین انسان کون ہے میں اس کو دیکھنا چاہتا ہوں ، اللہ رب العزت نے کہا کل جب تم گھر سے نکلو گے جس پر تمہاری نگاہ پڑے گی وہی مبغوض ترین انسان ہوگا ، موسی علیہ السلام گھر سے نکلے ایک آدمی کو دیکھا ، پھر گھر واپس آگئے اور دعا کی یا اللہ اس وقت تیرا محبوب بندہ کون ہے اس کو بھی دکھا دے، اللہ رب العزت نے کہا کل جب تم گھر سے نکلو گے جس پر تمہاری نگاہ پڑے گی وہی محبوب ترین انسان ہوگا ، موسی علیہ السلام گھر سے نکلے پھر دوبارہ اسی انسان کو دیکھا موسی علیہ السلام حیرت میں پڑ گئے اور فرمایا کہ یا اللہ مبغوض ترین انسان میں بھی اسی کو دیکھا اور محبوب ترین انسان میں بھی اسی کو دیکھا یہ کیا ماجرہ ہے، 

    آواز ائی اے موسی یہ مبغوض ترین انسان تھا اس کی زندگی گناہوں میں گزری اس نے کبھی مجھے سجدہ نہیں کیا ، کبھی میری چوکھٹ پر اس نے سر نہیں جھکایا، کبھی میرے نام پر صدقہ خیرات نہیں کیا، لیکن کل یہ اپنے بچے کو کندھے پر اٹھا کر لے جا رہا تھا، بچے نے پوچھا اس دنیا کے اندر سب سے بڑی چیز کیا ہے ، باپ نے یہ سارے سے کہا یہ پہاڑ بڑی چیز ہے، پھر بچے نے پوچھا اس پہاڑ سے بھی بڑی کوئی چیز ہے، اس نے کہا کہ سمندر پہاڑ سے بڑے ہیں ، پھر بیٹے نے پوچھا پہاڑوں اور سمندروں سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہے ، کہا کہ ہاں یہ زمین ان دونوں سے بڑھ کر ہے،، پھر بیٹے نے پوچھا کیا زمین سے بھی بڑھ کر کوئی چیز ہے، اس نے جواب دیا کہ سورج زمین سے بھی بڑھ کر ہے ، پھر بچے نے پوچھا کیا سورج سے بھی بڑھ کر کوئی چیز ہے، اس نے سر جھکایا اور کہا کہ تیرے باپ کے گناہ پہاڑوں سے سمندروں سے آسمانوں سے اور سورج سے بڑھ کر ہیں ، پھر بچے نے معلوم کیا ابا جان کیا میرے والد کے گناہوں سے بھی بڑھ کر کوئی چیز ہے ، اس میں سر جھکا کر انسو بہاتے ہوئے کہا کہ ہاں بیٹا تیرے رب کی رحمت سب سے بڑھ کر ہے۔

  اللہ رب العزت فرماتے ہیں اے موسی اس نے جو میری رحمت کا تذکرہ کیا اور ندامت کے آنسو بہائے میری عزت کی قسم میرے جلال کی قسم اگر یہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لئے گناہوں کی معافی مانگتا تو میں تمام انسانوں کو بخش دیتا ، اللہ رب العزت کو آنسو بہت پسند ہیں، وہ سات سمندروں کا بادشاہ ہے ، مگر ایک انسان کے آنسو کی قیمت سات سمندروں کے پانی سے زیادہ قیمتی ہے،

      کسی کا صبر آپ کی جان بھی لے سکتا ہے ، حسد بری چیز ہے 

.امام ابو حنیفہ رحمة اللّٰه علیه کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا، تین دن تعزیت کے لیے بیٹھے رہے تین دن کے بعد گھر سے باہر نکل کر آگئے۔ ایک بندہ آپ کا حاسد تھا ۔ سخت مخالف تھا اور سارا علاقہ جانتا تھا کہ آپ کا مخالف ہے، جب آپ باہر نکلے تو چوک میں بہت سارے لوگ تھے ، وہ بھی سامنے سے آیا۔ السلام علیکم کے بعد  کہنے لگا ابو حنیفہ سنا ہے آپ کے والد انتقال کر گئے ۔   تمسخر سے ‏کہنے لگا اپنی بوڑھی ماں کا نکاح میرے ساتھ کر دو۔ ‏اللّٰه اكبر ! ایسا سخت جملہ کہ وہ انسان کی نیند میں سوراخ کر دیتا ہے ۔ انسان سو نہیں پاتا آپ کھڑے رہے ۔ جملہ سخت تھا ۔ مگر بات تو شرعی تھی ۔  غیر شرعی تو نہیں تھی۔ تو امام صاحب کے ساتھ جو شاگرد تھے , عقیدت مند تھے , انہوں نے تلواریں نیام سے نکالی۔آپ نے شاگردوں سے فرمایا : رک جاؤ ۔ ہم کوئی لاوارث تو نہیں ہیں۔ ‏ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰه علیہ نے ساری ہمت سمیٹی ۔ آنکھ میں آنسو جو چمکے تو ان کو بھی دامن میں سمیٹ لیا ۔  ہمت جمع کر کے کہنے لگے۔  تو نے کہا ہے میں اپنی ماں کا نکاح تیرے ساتھ کر لوں۔ ‏تو عدت گزر لینے دے ۔ تیرا نام لے کے اماں سے بات کروں گا اگر وہ تیرے ساتھ نکاح کرنا چاہے ، تو مجھے اعتراض کوئی نہیں۔  یہ کہہ کے اپنے دوستوں کے بازو تھامے اگلے چوک تک ہی گئے تھے کہ ‏وہ بندہ دھڑام سے زمین پہ گرا اور روح پرواز کر گئی۔ 

‏۔ لوگ کہنے لگے حضور اسے کیا ہوا۔ آپ فرمانے لگے اس نے سمجھا تھا میں لاوارث ہوں ۔۔۔۔ ابو حنیفہ کے صبر نے اس کی جان لے لی ہے۔ کئی دفعہ لوگ دوسروں کو بڑے سخت جملے کہہ دیتے ہیں ،  بڑی تکلیف ہوتی ہے۔جو اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دے ، پھر اللہ ہی فیصلہ کر دیتا ہے ۔ حسد بڑی بُری چیز ہے اس کے شر سے اللّٰه ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ آمین

امام اعظم ابو حنیفہؒ کی سیرت و تاریخ" صفحہ نمبر ۱۲۵ منقول

                   عزت کا قتل اور ہمارا معاشرہ

  ایک گاؤں میں ڈاکو داخل ہوئے اور وہاں کی تمام عورتوں کی عصمت دری کر دی۔ مگر ایک خاتون ایسی تھی جب اس کے گھر میں ڈاکو داخل ہوا تو اس نے اس ڈاکو کو قتل کر دیا اور سر کاٹ دیا۔ اوردات کے بعد جب تمام ڈاکو اس گاؤں سے چلے گئے، تو تمام عورتیں اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں سمیت گھروں سے نکل آئیں اور روتے ہوئے ایک دوسرے کو روئیداد بیان کرنے لگیں۔ اتنے میں وہ بہادر خاتون اپنے گھر سے باہر نکلی۔ عورتوں نے دیکھا کہ اس کے گھر میں داخل ہونے والے ڈاکو کا سر اس نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے اور نہایت غیرت و خودداری کے ساتھ وہ اُن کی طرف آنے لگی۔ اس خاتون نے بلند آواز سے کہا کہ کیا تم نے سوچ لیا تھا کہ وہ مجھے مارے بغیر میری عزت تار تار کر سکتا تھا؟

  گاؤں کی عورتوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور فیصلہ کیا کہ اس عورت کو قتل کر دیا جائے تاکہ ان کی عزت بچی رہے اور ان کے شوہر کام سے واپس آنے پر ان سے یہ نہ پوچھیں کہ تم نے اس کی طرح مزاحمت کیوں نہیں کی؟ پھر انہوں نے اُس بہادر خاتون پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیا، انہوں نے ذلت کو زندہ رکھنے کے لئے عزت کا قتل کر دیا  یہی حال آج ہمارے معاشرے کے چور، حرام خور، جھوٹے اور کرپٹ لوگوں کا ہے۔ وہ ہر عزت دار، خوددار شخص کو مارتے ہیں۔ غریب اور سفید پوش کو حقیر جانتے ہیں اور استحصال کرتے ہیں، تاکہ وہ ان کی کرپشن، جھوٹ، چوری اور حرام خوری کے خلاف بات نہ کر سکیں۔ اصل میں یہ لوگ اپنی عزتیں گنوا چکے ہیں اور عزت داروں کا جینا حرام کر رکھا ہے  ایماندار سرکاری ملازم ہو تو کھڈے لائن، تاجر ہو تو دیوالیہ، سیاستدان ہو تو کردار کشی۔ نہایت معذرت کے ساتھ ! آپ جب کہیں بھی ایسے لوگ دیکھیں جو چور، جھوٹے، حرام خور، کرپٹ کا ساتھ دے رہے ہیں تو سمجھ جائیں کہ یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنی ذلت چھپانے کے لئے عزت کو قتل کر دیا تھا۔


            حقوقِ انسانیت 

         `اس تحریر کو غور سے پڑھیں..!!

       کانٹوں والے جانور یعنی کانٹوں سے بھرے خار پشت ایک دوسرے کے قریب نہیں آ سکتے کیونکہ ان کے اردگرد موجود نوکیلے کانٹے صرف دشمنوں سے نہیں بلکہ اپنے ہی جیسے دوسروں سے بھی فاصلہ بنائے رکھتے ہیں۔ لیکن جب سردی کا موسم آتا ہے، ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہے اور کڑاکے کا موسم ہوتا ہے تو انہیں قریب آنا ہی پڑتا ہے، گرمی حاصل کرنے کے لئے اور سہارا لینے کے لئے ،  جب وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو ایک دوسرے کے کانٹوں کی چبھن سہتے ہیں اور گرمائش محسوس کرتے ہیں، جیسے ہی جسم میں تھوڑی حرارت آتی ہے وہ ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ پھر سردی بڑھتی ہے تو دوبارہ قریب آتے ہیں۔ اسی آنے جانے میں ان کی رات گزر جاتی ہے،  اگر وہ ہمیشہ قریب رہیں تو چوٹیں کھاتے ہیں اور اگر ہمیشہ دور رہیں تو سردی سے مر جاتے ہیں۔

      بالکل یہی حال ہم انسانوں کا ہے۔ ہر ایک کے پاس اپنے اپنے کانٹے ہیں، خامیاں، مزاج، تلخیاں اور جب ہم ساتھ جیتے ہیں تو یہی خامیاں ایک دوسرے کو چبھتی ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم جب تک تھوڑا بہت برداشت نہیں کرتے تب تک زندگی کا توازن نہیں آتا، رشتے نہیں نبھتے، گرمی یعنی انسیت اور محبت نہیں ملتی۔   تو یاد رکھو جو یہ چاہے کہ اس کا دوست کوئی خامی نہ رکھتا ہو وہ ساری عمر تنہا رہے گا۔ جو یہ چاہے کہ بیوی مکمل ہو وہ کبھی شادی نہیں کرے گا، جو بھائی میں کوئی مسئلہ نہ چاہے وہ ساری عمر بے بھائی بنے رہے گا اور جو رشتہ داروں میں مکملی تلاش کرے وہ صلہ رحمی توڑ دے گا۔  زندگی تبھی خوبصورت بنتی ہے جب ہم تھوڑی سی چبھن برداشت کرنا سیکھ لیں، جب ہم دوسروں کو مکمل جاننے سے زیادہ ان کے اچھے پہلو پر نظر رکھنا سیکھ لیں۔

     یاد رکھو! جو ہر بات کو گہرائی میں جا کر پرکھنا چاہتا ہے وہ اصل خوشی کھو بیٹھتا ہے۔ جیسے کچھ لوگ ہیرا چیک کرتے کرتے اسے کوئلہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔

  

  

Post a Comment

0 Comments