شبِ برات

                     بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضللہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ:  حٰمٓ ﴿ۚۛ۱﴾ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿۳﴾ فِیۡہَا یُفۡرَقُ کُلُّ اَمۡرٍ حَکِیۡمٍ ۙ﴿۴﴾

     آج شعبان کی چوہدہ تاریخ ہے ، اسلامی مہینوں کے اعتبار سے شعبان کا مہینہ ، آ ٹھواں مہینہ ہے، شعبان کو فضیلت والے مہینے میں شمار کیا جاتا ہے، مسند روایات،  اور تاریخی واقعات کے تناظر میں،  اس مہینے کی بڑی فضیلت اور اہمیت ہے، یہ ہمارے ایمان کو مضبوط کرنے ، استغفار کرنے ، اور رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کی تیاری کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، 

   شعبان کا مہینہ اس اعتبار سے بڑا مبارک مہینہ ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، رمضان المبارک کے بعد سب سے زیادہ روزے شعبان کے مہینے میں رکھا کرتے تھے ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں کثرت سے عبادت کرتے تھے ،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں روحانیت کو بڑھانے کے لئے جہاں فرض روزوں کی تعلیم دی ہے وہی نفلی روزوں کی بھی ترغیب دی ہے، خاص طور پر شعبان کے مہینے میں بکثرت روزے رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے،

 حٰمٓ ﴿ۚۛ۱﴾ وَ الۡکِتٰبِ الۡمُبِیۡنِ ۙ﴿ۛ۲﴾ اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿۳﴾ فِیۡہَا یُفۡرَقُ کُلُّ اَمۡرٍ حَکِیۡمٍ ۙ﴿۴﴾   الدخان:4.3)ترجمہ،،  ہم نے اس کو  لوح محفوظ سے آسمانی دنیا پر ایک برکت والی رات یعنی شب قدر میں اتارا ہےہم آگاہ کرنے والے تھے، اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری پیشی سے حکم ہوکر طے کیا جاتا ہے۔(بیان  القرآن)

    تشریح۔  اس آیت مبارکہ ’’لیلة مبارکة‘‘ سے مراد کون سی رات ہے؟ رئیس المفسرین حضرت  عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنھما اور قتادہ، مجاہد، حسن رحمھم اللہ    اورجمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ ’’لیلة مبارکة‘‘ سے مراد "شب ِقدر"ہے،یعنی وہ رات  جس میں نزولِ قرآن ہوا، جس میں مخلوقات کے متعلق تمام اہم اُمور کے فیصلے  طے اور مقرر کیے جاتے ہیں ، کہ کون اس سال میں پیدا ہو گا، کون  اس سال میں مرے گا، کس کو کس قدر رزق اس سال میں دیا جائے گا؟ وہ "شبِ قدر "  ہے ،بعض  روایاتِ حدیث میں شبِ براءت، یعنی شعبان کی پندرھویں شب کے متعلق بھی آیا ہے کہ اس میں آجال وارزاق کے فیصلے لکھے جاتے ہیں، اس لیے بعض حضرات  مثلاً  حضرت عکرمہ رحمہ اللہ وغیرہ نے آیتِ مذکورہ میں ’’لیلة مبارکة‘‘ کی تفسیر لیلة البراءة" سے کی ہے، مگر یہ قول مرجوح ہے، کیوں کہ یہ قول جمہور کے قول کے خلاف اور  ظاہری نصوص کے خلاف ہے، نیز مذکورہ روایت کے متعلق حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے، کہ یہ روایت مرسل ہے ،اور اس جیسی روایت صریح نصوص کا مقابلہ نہیں کرسکتی، البتہ بعض مفسرین نے قرآن اور احادیث  کے درمیان اس طرح تطبیق دی ہے کہ شبِ براءت میں اجمالی فیصلے ہوتے ہیں اور شبِ قدر میں تفصیلی احکام جاری ہوتے ہیں اور ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں۔ 

    اللہ کے رسول نے فرمایا اے عائشہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس رات میں یعنی پندرہویں شعبان کی رات میں کیا ہوتا ہے، حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول کیا ہوتا ہے، اللہ کے رسول نے فرمایا کہ شعبان کی پندرھویں رات میں ، اس سال پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے نام لکھے جاتے ہیں، اس سال مرنے والے تمام انسانوں کے نام لکھے جاتے ہیں، اس رات میں نام اعمال اٹھائے جاتے ہیں، اور لوگوں کو روزی تقسیم کی جاتی ہے، 

    آج کی رات جو ہے وہ شب برات کی رات ہے

   شب کے معنی آتے ہیں رات کے اور برات کے معنی آتے ہیں آزادی کے ، شبِ برات کے معنی ہوے آزادی کی رات ،  اللہ رب العزت اس رات میں اتنے لوگوں کی مغفرت کرتے ہیں، جتنےقبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے جسم پر بال ہیں ، عرب کے قبیلوں میں بنو قلب کا جو قبیلہ تھا ان کے پاس سب سے زیادہ بکریاں تھیں، اللہ کے نبی نے بکریوں کے ساتھ تشبیہ نہیں دی بلکہ بکریوں کے بالوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے، فرمایا کہ بکریوں کے جسم پر جتنے بال ہوں گے اتنے ہی لوگوں کی مغفرت کی جائے گی، ایک بکری کے جسم پر کتنے بال ہوتے ہیں اسکو گننا مشکل اور دشوار ہے تو قبیلے کے تمام بکریوں کے جسم کے بال کو گننا شمار کرنا یہ نام محال ناممکن ہے، یعنی اس رات میں لا تعداد لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے، 

  لیکن آٹھ قسم کے ایسے لوگ ہیں جن کی اس رحمت اور برکت والی رات میں بھی مغفرت نہیں کی جاتی ہے، 

   نمبر ایک ،، شرک کرنے والا  شرک  کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات و صفات کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، جو چیزیں اللہ تعالی سے مانگنی چاہیے تو اللہ تعالی کو چھوڑ کر کے کسی پیر و فقیر اولیاء اللہ سے مانگنا بھی شرک ہے،  انسان کی زندگی کا سب سے بڑا گناہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ شرک کے علاوہ تمام گناہوں کو معاف کر دوں گا لیکن شرک معافی نہیں ہے، اس لیے میرے بھائیو چھوٹا کام ہو یا بڑا کام ہو چھوٹی پریشانی ہو یا بڑی خوشی ہو کیسی بھی حالت ہو ہر حال میں ہمیں اللہ تعالی کے سامنے ہی جھکنا ہے اور اس سے ہی مانگنا ہے، 

  نمبر دو قتل ، شب برات میں رحمت الہی سے محروم رہنے والا قتل نا حق کرنے والا بھی ہے،  وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ ، خَالِدًا فِیْھَا وَغَضَبَ اﷲُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا ۔ (نساء:۹۳)

جو جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کردے، اس کا بدلہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا ، اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہو اور اللہ نے اس کے لئے بھیانک عذاب تیار کر رکھا ہے 

    نمبر تین والدین کی نافرمانی کرنے والا ، شب برات میں رحمت الہی سے محروم ہونے والا والدین کی نافرمانی کرنے والا بھی ہے ، جس نے والدین کی نافرمانی کی اور ان کو اذیت و تکلیف پہنچائی تو وہ انسان بھی اس رات میں محروم رہے گا، اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں کے ساتھ جوڑا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی نسبت عطا کی ہے، کسی کو دادی اور دادا بنایا ہے، تو کسی کو نانی اور نانا کے مقدس رشتے سے جوڑا ہے، الغرض اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں کے ساتھ جوڑا ہے،اور ان میں سے ہر ایک کے حقوق مقرر فرماتے ہیں، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے ، لیکن والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اپنی بندگی اورا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے، 

  نمبر چار قطع رحمی کرنے والا، شب برات میں رحمت الہی سے محروم رہنے والا رشتوں کو توڑنے والا بھی ہے،  ابھی اس میں اتا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلق رکھے، بات چیت اور سلام و کلام کو بند رکھیں،اگر اسے حالت میں مر گئے تو ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا،

  نمبر پانچ بغض و حسد رکھنے والا، شب برات میں رحمت الہی سے محروم رہنے والا بغض و عداوت رکھنے والا بھی ہے ، عداوت و دشمنی کو دل میں چھپانے والا، اور نفرتوں کو دل میں دبا کر رکھنے والا بھی ہے ، وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ،،، اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وه حسد کرنے لگے۔ اللہ تعالی نے اس چھوٹی سے سورت میں پانچ چیزوں سے پناہ مانگنے کیلئے کہا ہے ،

  إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ، فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ حسد سے بچو اس لئے کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے، جس طرح سے آگ جنگل کی لکڑیوں کا صفائی کردیتی ہے ، بڑے بڑے درختوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ، اور ان کا نام و نشان تک مٹا دیتی ہے اسی طریقے سے حسد بھی انسان کی نیکیوں کو جلا کر کے راخ کر دیتی ہے،

    عام طور پر انسان کو دو طرح کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں نمبر ایک جسمانی بیماری، نمبر دو روحانی بیماری، جسمانی بیماری جیسے بخار زکام، نزلہ کھانسی، سر کا درد پیٹ کا درد، کمر کا درد جوڑوں کا درد، بلڈ پریشر شوگر کینسر اور اس جیسی دوسری مہلک بیماریاں ، اگر وقت پر ان کا علاج کیا جائے تو انسان کو شفا مل جاتی ہے، اور اگر انسان بیماری میں صبر کرتا ہے، اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ اگر کوئی انسان اسی حالت میں مر جاتا ہے، تو اس کے درجات بلند ہوتے ہیں ، اور اس کی یہ بیماری اس کے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتی ہے ،

    دوسری بیماری روحانی بیماری ہے، جیسے جھوٹ غیبت چغل خوری بدگمانی، تکبر انا نیت، اگر وقت پر علاج کیا گیا تو ان بیماریوں سے بھی شفا مل جاتی ہے، اگر ان بیماریوں کا علاج نہیں کیا گیا تو یہ روحانی بیماری انسان کے لئے نہایت ہی مضر اور خطرناک ثابت ہوتی ہیں، اس بیماریِ کی وجہ سے انسان کے نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں ، اور اس کے گناہوں میں اصافہ ہوتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص اس بیماری میں مبتلا ہو کر مر جاتا ہے تو اس کی آخرت کے خراب ہو نے کا شدید اندیشہ ہے ، انہیں روحانی بیماریوں میں سے ایک مہلک ترین بیماری حسد ہے ، قرآن و حدیث میں اس بیماری کی سخت مذمت آئی ہے ،

     نمبر چھ   پائجامہ کو ٹخنوں سے نیچے پہننے والا ، 

     نمبر سات زنہ کرنے والا  

    نمبر آٹھ شراب پینے والا ،

     آج کی رات یہ کام کرنا چاہئے

   اس رات میں یہ کام کرنا چاہئے ، نفل نماز ، صلواۃ التوبہ ، صلواۃ الحاجت ، تہجّد ، اور صلواۃ التسبیح ، وغیرہ کی نماز پڑھ سکتے ہو، قران کریم کی تلاوت اور ذکر و اذکار کر سکتے ہو، اپنے لیے اپنے بچوں کے لئے اپنے ماں باپ کے لئے اپنے رشتہ داروں و کیلئے اور اپنے دوسرے عزیزوں کے لیے دعائیں کر سکتے ہو،  شب براء ت عام راتوں کے مانند نہیں ہے بلکہ بہت سی احادیث سے اس رات کا فضیلت وعبادت کی رات ہونا ثابت ہے اس لیے اس رات میں جاگ کر انفرادی طور پر عبادت کرنا: نفلیں پڑھنا، قرآن پاک کی تلاوت کرنا اور ذکر واذکار میں مشغول رہنا اور اپنے لیے اور اپنے والدین اور تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنا اور دینی ودنیوی جو بھی ضرورت ہو اللہ تعالی سے اس کا سوال کرنا وغیرہ مستحب ہے۔ اس کے علاوہ اس رات میں دیگر خرافات جو عوام میں رائج ہیں جیسے: چراغاں کرنا، قسم قسم کے کھانے پکانا اور انھیں تقسیم کرنا اور نئے کپڑوں کا اہتمام کرنا وغیرہ بے اصل ہیں، شریعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں بلکہ ناجائز وبدعت ہیں۔ اور ۱۵/ شعبان کو روزہ رکھنا یہ ایک ضعیف حدیث سے ثابت ہے، لیکن اس کا ضعف اس درجہ کا نہیں ہے کہ فضائل کے باب میں اس پر عمل جائز نہ ہو اس لیے اکثر علمائے کرام کی تحقیق کے مطابق ۱۵/ شعبان کو روزہ رکھنا مستحب ہے یعنی: رکھنے کی صورت میں ثواب ہوگا اور نہ رکھنے کی صورت میں کوئی گناہ وغیرہ نہ ہوگا

          وآخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین 






  

Post a Comment

0 Comments