بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضللہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ ؛ وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ
الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةَ
آج میں آپ حضرات کے سامنے حج کے متعلق کچھ باتیں بیان کرنے کی کوشش کروں گا، ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی مجھے صحیح صحیح کہنا ہے اور ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،
بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأنّ محمَّدًا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والحج، وصوم رمضان ،،، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: (1) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، (2) نماز قائم کرنا، (3) زکات ادا کرنا، (4)حج کرنا اور (5) رمضان کے روزے رکھنا۔
جس طریقے سے دن میں پانچ وقت کی نماز پڑھنا فرض ہے، رمضان المبارک میں روزے رکھنا فرض ہے،اور زکوۃ فرض ہونے پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے اسی طریقے سے حج فرض ہو جانے کے بعد حج ادا کرنا فرض ہے،لیکن آج ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ اس سے غافل ہیں، اور جن لوگوں کو معلوم ہے وہ لوگ کاہلی اور سستی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کر دی تو اللہ رب العزت نے فرمایا اے ابراہیم تم اونچی جگہ کھڑے ہو کر کے اعلان کرو اور میرے گھر آنے کی دعوت دو حضرت ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے کہ میں پوری دنیا کے اندر اواز کیسے پہنچا سکتا ہوں اللہ تعالی نے کہا کہ تیرا کام اواز دینا ہے اور ساری مخلوق تک پہنچانا یہ تیرے رب کا کام ہے، وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لوگوں کو بلاؤ کہ وہ اللہ کے گھر کی طرف ائیں ،پیدل چل کر ائیں سواریوں پر آئیں دبلی اور پتلی سواریوں پر آ ئیں، ابراہیم علیہ السلام نے اعلان کیا اور یہ اواز عالم ارواح تک پہنچ گئی اور جس نے بھی اس وقت لبیک کہا تو اللہ تعالی اس کو حج کرنے کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں
وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ۔ ترجمہ اور اللہ کے لئے لوگوں پر حج فرض ہے ان لوگوں پر جو لوگ بیت اللہ تک جانے کی طاقت اور وسعت رکھتے ہیں ، اور جو کفر کرے گا ناشکری کرے گا تو اللہ تعالی بے نیاز ہے جہان والوں سے،
اس آیت کریمہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حج تمام مسلمانوں پر فرض نہیں ہے، بلکہ ان مسلمانوں پر فرض ہے جن کے پاس مال و دولت ہے جن کے پاس طاقتوں قوت ہے اور جو لوگ سفر کا خرچ برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، شریعت دو عبادت ایسی ہیں جو ہر ایک مسلمان پر فرض ہے، امیر ہو یا غریب ، فقیر ہو یا بادشاہ ، مرد ہو یا عورت، ہر ایک پر فرض ہے اور وہ دو عبادت ہیں نماز اور روزہ، اور دو عبادت ایسی ہیں جو صرف مالداروں پر فرض ہے وہ ہے زکوۃ اور حج، آج کے ہمارے زمانے میں حج ان لوگوں پر فرض ہے، جس کے پاس آنے جانے کا خرچہ موجود ہو ، جتنے دن وہاں ٹھہرے گا ان ایام کا خرچہ بھی موجود ہو، اور جو اس کے پیچھے ہیں اس کے بیوی بچے ہیں ماں باپ ہیں ان کا خرچہ بھی موجود ہو ، اگر کسی کے پاس اتنا مال و دولت ہے کسی کے پاس اتنی وسعت ہے اور طاقت ہے تو ایسے آدمی پر حج کرنا فرض ہے ، اگر کسی پر حج فرض ہو جائے اور پھر وہ حج ادا نہ کریں تو ایسے آدمی کے لیے بڑی سخت وعید آئی ہے حدیث میں آتا ہے کہ ایسا شخص یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر مرے، ممکن ہے کہ مرتے وقت اسلام کو چھوڑ دے اور کفر کی حالت میں اس کی موت ہو، اس لئے جن لوگوں پر حج فرض ہے ان کو حج ادا کرنا چاہئے ،
قرآن و حدیث میں حج کرنے والوں کے لئے بڑی بڑی فضیلتیں آئی ہیں، الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةَ.ترجمہ ایک عمرے سے دوسرا عمرہ کرنا یہ انسان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اور مقبول حج کا بدلہ صرف اور صرف جنت ہے،،،
مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ. جس نے صرف اللہ کے لئے حج کیا، بےہودہ لایعنی اور فسق و فجور کی باتیں نہیں کی جب یہ لوٹ کر آئے گا تو گناہوں سے ایسے پاک ہوگا جیسا کہ اس کی ماں نے اس کو ابھی جنا ہو ، یعنی جس طریقے سے چھوٹا سا بچہ گناہوں سے بالکل پاک اور صاف ہوتا ہے اسی طریقے سے حج کرنے والا جب وہ اپنے گھر واپس آتا ہے تو گناہوں سے بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے ،
حضرات صحابہ اور ہمارے بزرگوں میں ایسے بہت سارے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے کثرت سے حج کو ادا کیا ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنی زندگی میں ایک 11 حج کئے تھے ،،
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں 55 حج کئے تھے اور سب سے پہلا حج 16 سال کی عمر میں کیا تھا، ہمیں بھی حج کرنے کی نیت رکھنا چاہئیے اگر حج نہیں کر سکتے تو کم از کم عمرہ کر سکتے ہیں، اگر نیت سچی ہو اور ارادہ پکا ہو تو اللہ تبارک و تعالی اس کے لئے راستہ نکال دیتے ہیں،
اسود بن یزید رحمت اللہ علیہ کے بارے میں اتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں 80 حج کیے تھے۔ یہ ا پنے زمانے کے بہت بڑے محدث گزرے ہیں، ان کی عمر 100 سال سے زیادہ ہوگی ،اور انہوں نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ حج کیا تھا، ہمیں بھی حج کا ارادہ رکھنا چاہیئے اگر ہم حج نہیں کر سکتے تو کم سے کم عمرہ تو کر سکتے ہیں ، اگر نیت سچی ہو اور ارادہ پکا ہو تو اللہ تبارک و تعالی اس کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی دیتے ہیں،
واقعہ ایک کتاب ہے روض الریاحین فی حکایت الصالحین اس کتاب میں ایک واقعہ لکھا گیا ہے، ایک شخص حضرت جنید بغدادی رحمت اللہ علیہ کی مجلس میں آیا اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے کے بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، فرمانے لگا کہ لوگ حج پر جا رہے ہیں قافلے روانہ ہو رہے ہیں میرا دل بھی چاہتا ہے کہ میں بھی حج کے لئے جاؤں لیکن میرے پاس وسعت نہیں ہے، میرے پاس مال و دولت نہیں ہے، اور سواری کا انتظام بھی نہیں ہے،آپ میرے لئے دعا فرما دیں کہ اللہ تعالی میرے لئے کوئی اسباب نکال دے، تو مجلس میں بیٹھا ایک آدمی کہنے لگا جب تیرے پاس مال و دولت نہیں ہے سواری کا انتظام نہیں ہے تو تیرے اوپر حج فرض بھی نہیں ہے جب حج فرض نہیں ہے تو اتنا زیادہ پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے، وہ ادمی کہنے لگا کہ مجھے معلوم ہے کہ میرے پاس مال و دولت نہیں ہے اور سواری کا انتظام نہیں ہے لیکن میں ایک مسلمان ہوں میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ عبادت بھی میں اپنی زندگی میں کر لوں اور بیت اللہ کا دیدار بھی ایک مرتبہ کر لوں،۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو درہم کا صرف ایک سکہ ملا اس آدمی کو دیا، اور دعا کی کہ اس پیسے میں برکت عطا فرما اور اس کو حج کی سعادت سے مالا مال فرما، ہر جنید بغدادی رحمت اللہ علیہ نے اس سے فرمایا کہ جہاں سے لوگ حج کرنے کے لیے جاتے ہیں جہاں سے قافلہ روانہ ہوتا ہے تو وہاں چلے جاؤ اور اللہ تعالی سے دعا کرتے رہنا اللہ تعالی تمہارے لئے کوئی راستہ نکال دے گا ، لہذا یہ ادمی وہاں کھڑا ہو گیا جہاں سے لوگ حج کے لئے جاتے ہیں، وہاں سے ایک قافلہ گزرا قافلے کے آدمیوں نے اس کو دیکھا تو معلوم کیا کہ تم یہاں کیوں کھڑے ہو ، تو اس نے کہا کہ میں حج کے لیے جا رہا ہوں، قافلے والوں نے پوچھا کیا سواری کا انتظام ہے زاد راہ کا انتظام ہے کہا نہیں ، تو قافلے والے کہنے لگے کہ ہمارے ساتھ چلو کیونکہ ہمارے پاس ایک سواری خالی ہے ہمارے ساتھ ایک آدمی جانے والا تھا لیکن اچانک وہ بیمار ہو گیا اور نہیں آسکا ، لہذا یہ آدمی خوشی خوشی سوار ہو گیا، لہذا قافلے والے جہاں بھی رکتے ہیں اس کو کھانا وانا کھلاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مہمان ہے، لہذا یہ آدمی بیت اللہ تک پہنچ گیا اور پورے حج کے ارکان ادا کر لئے ، اور اس کا سارا خرچہ قافلے والوں نے برداشت کیا کہ یہ ہمارا مہمان ہے، یہاں تک کہ حج کر کے واپس اگیا حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا اور آنکھوں سے آنسوں جاری ہو گئے ، اپ کے لیے کھجور کا تحفہ لایا،اور وہ درہم نکال کر کے واپس حضرت جنید بغدادی رحمت اللہ علیہ کو دے دیا، اور کہنے لگا کہ میں نے پورا حج کر لیا لیکن ایک درہم بھی اس میں خرچہ نہیں ہوا،
اس واقعے کو سنانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر نیت سچی ہو اور ارادہ پکا ہو تو اللہ تبارک و تعالی اس کے لئے اسباب پیدا کر دیتے ہیں اور اس کے لئے راستوں کو کھول دیتے ہیں ،
حج کرنے والوں کے لیے بڑی بڑی فضیلتیں ہیں لہذا جن لوگوں پر حج فرض ہے ان کو حج ادا کرنا چاہئے اور حج یہ ایسی عبادت ہے جو زندگی میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے ، اس لئے انسان جس طریقے سے زندگی میں دوسرے کاموں کے لئے کوشش کرتا ہے محنت کرتا ہے جدوجہد کرتا ہے اور قربانیاں دیتا ہے، ہم شادی کے لئے کتنی تیاری کرتے ہیں چار پانچ سال پہلے سے اس کی تیاری کرتے ہیں ایک ایک پیسہ اس کے لئے جوڑتے ہیں جمع کرتے ہیں، مکان بنانے کی تیاری کرتے ہیں، گاڑیاں خریدنے کی تیاری کرتے ہیں، موبائل لینے کی تیاری کرتے ہیں، زمینیں خریدنے کی تیاری کرتے ہیں، خدا کے گھر کے لئے کیا تیاری کی ہے ، جس کی طرف رخ کر کے روزانہ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں کبھی ہم نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا جس نبی پر روزانہ ہم درود بھیجتے ہیں اس نبی کی قبر کبھی ہم نے آنکھوں سے دیکھ لیا ہوتا، مکان بنانے کی فکر ہے مگر قبر کی فکر نہیں ہے، دنیا بنانے کی فکر ہے مگر آخرت بنانے کی فکر نہیں ہے، گھر والوں کو راضی کرنے کی فکر ہے مگر اللہ کو راضی کرنے کی فکر نہیں ہے،
اگر کسی کے پاس پانچ لاکھ روپے ہیں تو اس پر حج فرض ہیں،چاہے وہ پیسے سونے چاندی کی شکل میں ہو، چاہے وہ پیسے پلوٹ کی شکل میں ہو، یا وہ پیسے بزنس کی شکل میں ہو، اگر پاس میں پیسے نہیں ہیں تو سونا چاندی بیچ کر کے حج کرنے کے لیئے جانا پڑے گا، پلاٹ بیچ کر کے حج کرنے کے لیے جانا پڑے گا، اگر زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض ہو گیا تو اس کو ادا کرنا ضروری ہے بعد میں وہ پیسے باقی رہے یا نہ رہے لیکن حج فرض ہو جانے کے بعد اس کو ادا کرنا ضروری ہے،
0 Comments
آپ یہاں اپنی رائے کا اظہارکرسکتے ہیں، آپکی کی راۓ ہمارے لئے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آپ کو پوشیدہ رکھا جائے گا 👇👇👇👇