🌹 بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
طلبہ مدارس کیلئے اہم نصیحت
مدرسوں كے طلبہ اور فارغين اپنے مستقبل كے متعلق ہمیشہ فكر مند رہتے ہيں، وه شكايت كرتے ہيں كہ وه جگہيں بہت محدود ہيں جہاں وه عملى زندگى ميں مشغول هوسكتے ہيں، دينى تعليم نے ان كى ترقى كى راہوں کو محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہیکہ دینی تعلیم ترقی کی راہوں کو لا محدود کر دیتی ہیں۔۔
اس مضمون ميں اسى كى وضاحت كى جا رہى ہے كہ وه جگہيں جنہيں آپ اپنا ميدان عمل بنا سكتے ہيں، وه ہرگز محدود نہيں، بلكہ صحيح بات يہ ہے كہ ان جگہوں پر كوئى مقابلہ ہى نہيں، مواقع كے كمى كى شكايت اس لئے ہے كہ ہم غلط جگہوں پر نگاه لگائے ہوئے ہيں، ہماری جگہ فضل وكمال ہے، ہم فضل وكمال كو چهوڑ كر ان جگہوں كو اپنا ميدان سمجه رہے ہيں جو ہمارے مقام سے بہت نیچے ہيں۔
پہلے ميں ان چیزوں كى نشاندہى كرتا ہوں جن کو ہمیں حاصل کرنا چاہئے، یہی وہ چیزیں ہیں جو ہماری منزل کو آسان بنا سکتی ہیں۔۔ اس کے بعد ان غلط چیزوں کی نشان دہی کرونگا، جو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں، جس نے ہماری لا محدود منزل کو محدود کرکے رکھ دیا ہے۔
درست مواقع:
درست مواقع دو ہيں جو لا محدود ہيں، اور ان ميں مدارس كے سارے فارغين لگ سكتے ہيں، نه كوئى مقابله آرائى اور نه حسد وعداوت، اور حقيقتًا يہى دونوں جگہيں آپ كا جوہر دكهانے كے جگہيں ہيں، ایک فضل، دوسرا كمال۔
خاص طور پر ہم مدارس کے طلبہ کو انسانی فضائل میں آگے بڑھنا چاہئے، انسانى فضائل وه صفات ہيں جو انسان کو دوسرے انسان سے ممتاز کرتی ہیں، اور ان صفات كا پيدا كرنا ہی انسان کی تخلیق کا مقصد ہے۔ وہ یہ صفات ہيں۔ ايمان، اسلام، عبادت، تقوى، امانت، عدل، كرم، صبر، حلم، عفو، قربانى، اگر ہم ان صفات كو اپنائيں گے تو خدا سے قريب ہوں گے، آخرت ميں ہماری نجات كى اميد قوى ہوگى، ہماری محبوبيت انسانی دلوں ميں ڈال دى جائے گى، یہ وہ صفات ہیں، جن کے ذریعے ضلالت وگمراہی میں پھنسے ہوئے انسانوں کو نکال کر ہدایت کی روشنی میں لایا جا سکتا ہے، اور ان صفات کے ذریعے انسانی دلوں ہر حکمرانی کی جاسکتی ہے۔اگر ہم گزرے ہوۓ زمانے میں جاکر ایک نظر علماء کرام پر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم چلتا ہیکہ تمام علماء کرام ان صفات سے مزین تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ انکی عزت ہی نہیں بلکہ ان کے اشاروں پر مر مٹنے کیلۓ تیار رہ تے تھے۔ آج ہم ان صفات سے کو سو دور ہیں، اور ہم لوگوں سے عزت کی امید رکھتے ہیں۔۔ خلاصہ یہ ہیکہ ہر عالم ان صفات کا حامل ہونا چاہئے۔
دوسرى چيز ہے مہارت ہے ،کمال ہے۔ ہمیں کسی ایک چیز میں مہارت حاصل ہونی چاہئے۔مہارت كى سارى جگہيں خالى ہيں۔ صاحب مہارت كہيں بھی ہو دنيا اس كى قدر كرتی ہے۔ ذيل ميں وه چند موضوعات ذكر كئے جاتے ہيں جن ميں ہم كمال پيدا كرسكتے ہيں:
1- تفسير وعلوم قرآن۔
2- حديث وعلوم حديث۔
3- فقه، اصول فقه، فتوى وغيره۔
4- نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كى سيرت۔
5- عام سيرت وسوانح۔
6- تاريخ اسلام۔
7- علم كلام، يعنى اديان وفرق كے بنيادى مسائل، اور عقائد وافكار كو متاثر كرنے والے نظريات كا مطالعه۔
8- اسلام اور جديد علوم، معاشيات اور اسلام، ماحوليات اور اسلام، نفسيات اور اسلام، جديد طب اور اسلام، وغيره۔
9- اردو زبان وادب۔
10- عربى زبان وادب۔
11۔ تقریر یا مضمون نگاری
معاشى مسئله كا حل:
اب ہمارا سوال ہو سکتا ہیکہ ان دونوں چیزوں پر عبور حاصل کرنے پر ہمارا معاشى مسئله كيسے حل ہوگا؟ جب ہم مذکورہ دونوں چیزوں کو حاصل کر لینگے تو ہمارا کمال اور ہمارا تقوی خود بولے گا، اور دنیا ہمیں خود تلاش کرتی ہوئی آۓ گی،
چند مثاليں پيش كرتا ہوں:
قارى ابو الحسن جگديشپورى نے اپنے فن ميں كمال پيدا كيا تو ديوبند نے انہيں خود دعوت دى، اور ان كى تقررى كى، مولانا عبد الحق اعظمى صاحب نے حديث ميں امتياز پيدا كيا تو انہين بلاكر ديوبند ميں حديث كا استاد بنا ديا گيا، مولانا برہان الدين سنبهلى دلى كى فتحپورى مسجد ميں درس قرآن ديتے تهے، لیکن مفكر اسلام مولانا سيد ابو الحسن على ندوى نے انہيں ندوه ميں مدرس بناديا، جہاں وه ايك كامياب استاد كى حيثيت سے درس وتدريس ميں مشغول رہے، مولانا واضح رشيد ندوى نے عربى زبان وادب ميں كمال پيدا كيا تو ان كو ندوه بلايا گيا، مدرس بنايا گيا اور الرائد كى ايڈيٹنگ ان كے سپرد ہوئى۔ جتنے بھی بڑے مدارس ہیں ان میں پڑھانے والے اساتذہ ، پہلے چھوٹے مدارس میں ہی خدمت انجام دے رہے تھے ۔ لیکن ان کے کمال اور ان کی مہارت نے ان کو بڑے بڑے مدارس میں پہونچا دیا، ۔۔ اور کتنے ایسے عالم بھی ہیں جو پچاس سال پہلے جہاں تھے آج بھی وہ وہی ہیں۔
خلاصہ یہ کہ اپنے اندر کو ئ ایک مہارت ضرور پیدا کی جاۓ
آج كل جو طلبہ مدارس سے فارغ ہو رہے ہيں ان كا معيار بہت پست ہے، نہ كوئى زبان آتى ہے، نہ اچھی طرح عبارت پر عبور حاصل ہے، نہ کسی علوم وفنون ميں مہارت ہے۔ نہ تقریر کر سکتے ہیں، اور نہ مضمون نگاری میں دل چسپی ہے۔ اور خواہش يه كه ان كو غزالى ورازى كا مقام ملے، اور دارالعلوم کا شیخ الحدیث بن جا ۓ۔۔جان ليں كہ آرزؤں اور تمناؤں سے كوئى مقام نہيں ملتا، اور ایسے انسانوں کی دنیا میں کوئی قدر نہیں ہے۔
غلط مواقع:
ذيل ميں بطور مثال ان چند چيزوں كا ذكر كيا جاتا ہے، جنہوں نے ہماری زندگی كو محدود كرديا ہے، اور ہماری صلاحیتوں كوناکارہ بنانے کی کوشش کی ہے:
1- مدرسوں كے فارغين كى ايك بڑى تعداد ايك نئے مدرسه يا اداره كے قيام كو اپنا نظر یہ بنا ليتے ہیں، اس طرح وہ دین کی خدمت کے ساتھ، اپنا معاشى مسئله بهى حل كر ليتے ہيں۔ یہ حقیقت ہیکہ فارغين كى تعداد بہت بڑى ہوتی ہے ، سب كے لئے كوئى نيا مدرسه ، يا اداره بنانا نا ممكن ہے، اس لئے بہت سارے طلبہ، مایوسی، بزدلی، اور کم ہمتی کے شکار ہوکر ہو کر اس میدان کو چھوڑ نے کی کوشش کرتے ہیں
2- كچه لوگ اس كوشش ميں رہتے ہيں كه كسى مدرسه يا اداره كے مہتمم، ناظم يا صدر بن جائيں، انتظامى عہدے بہت محدود ہيں، ان كے حصول كے لئے مقابله ہوتا ہے، رسه كشى ہوتی ہے۔ اورعداوت ونفرت کو وجود بخشا جاتا ہے ، نتيجتًا ہماری اصلی صلاحیت ہمیشہ ہمیش کیلئے زیر زمین دفن ہو کر رہ جاتی ہے۔۔
3- كچه لوگ كسى مخصوص مدرسه يا اداره ميں كام كرنے كے لئے مصر ہوتے ہيں، ظاہر ہے كه كوئى مدرسه يا اداره صرف محدود لوگوں كى تقررى كر سكتا ہے، اكثريت محرومى كا شكار ہوجاتی ہے۔
4 ۔ آج كل مدارس كے فارغين كى بڑى تعداد انگريزى زبان يا كمپيوٹنگ وغيره ميں ايك دو ساله كورس كركے كوئى نه كام تلاش كرنے كى كوشش كرتے ہیں، اس سے ان كا معاشى مسئله كسى حد تك حل ہو جاتا ہے، ليكن وه دین کی خدمت سے محروم ہو جاتے ہيں، اور مدارس ميں علوم وفنون كى تحصيل ميں جو محنت كى تھی وہ ضائع ہو جاتى ہے۔
وما علینا الا لبلاغ
![]() |
آپ نیچےاپنی رائے کا اظہار کرکے ہماری حصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔۔ یا ہماری غلطیوں کو اجاگر کرکے ہمیں صحیح راہ دکھا سکتے ہیں۔۔۔ ۔
2 Comments
ماشاء اللہ بہت مختصر اور مفید اس کو پرنٹ میڈیا میں بہی آجانا چھئیے۔اللهم زد فزد
ReplyDeleteآپ کا شکریہ ہماری حوصلہ افزائی کیلئے
Deleteآپ یہاں اپنی رائے کا اظہارکرسکتے ہیں، آپکی کی راۓ ہمارے لئے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آپ کو پوشیدہ رکھا جائے گا 👇👇👇👇