وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا
الله تعالٰی نے انسانوں کو بیشمار نعمتیں عطا کی ہیں، اتنی نعمتیں عطا کی ہیں کہ ان کو شمار کرنا اور گننا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہیں، الله تعالٰی نے قرآن مجید کے پارہ نمبر 14 اور سورہ نحل۔ کی آیت نمبر 18 پر ارشاد فرمایا ہے وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ- اگر تم میری نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے ، مگر ان میں سے سب سے بڑی نعمت ایمان کی نعمت ہے۔ جو لوگ ایمان لیکر آۓ وہ دنیا کے خوش نصیب انسان ہیں، ان لوگوں کیلئے دنیا و آخرت دونوں جگہوں میں کامیابی ہے۔
الله تعالٰی کا ہم پر بہت بڑا احسان ہیکہ الله تعالٰی نے انسان بناکر مسلم گھرانے میں پیدا کیا ، اگر اللہ تعالٰی ہمیں کسی حیوان یا درندے کے روپ میں پیدا فرمادیتا تو ہم بھی جنگلوں میں بھٹکتے رہ تے، اور ہم دنیا کی بہت ساری نعمتوں سے محروم ہو جاتے۔اور اگر ہمیں کسی غیر مسلم کے گھر میں پیدا فرمادیتا تو ہمارا کیا ہوتا؟ ہم بھی ضلالت و گمراہی میں پھسے ہوئے ہوتے ، اگر ہم ایمان لانا چاہتے بھی تو کتنی جدوجہد اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑتا؟ ہر مذہب کی کتابوں کو پڑھنا اس پر ریسرچ کرنا اور صیحح غلط کا فیصلہ کر کے اس مذہب کو اختیار کرنا یہ انتہائی مشکل کام ہے،کیونکہ ہر مذہب انسانوں کو اپنی جانب کھینچتاہے ، اور اس طرح ہم ایمان کی دولت سے محروم ہوجاتے۔ مگر الله تعالٰی نے بغیر محنت اور مشقت کے ایمان کی دولت عطا کردی۔ اس عظیم نعمت پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔۔
اللہ تعالیٰ کی ہم پر بے شمار نعمتیں ہیں مگر آج ہمیں الله تعالٰی کی نعمتوں کی قدر نہیں ہے اگر الله تعالٰی ایک نعمت بھی چھین لے تو اس کی قدر معلوم ہو جائے گی، الله تعالٰی نے ہمیں آنکھیں دی ہیں، اگر الله تعالٰی یہ نعمت چھین لے تو پوری دنیا اندھیری ہوجاۓ گی ، اور ہم دنیا کے خوبصورت مناظر کو دیکھنے سے محروم ہو جائیں گے۔ الله تعالٰی نے ہمیں زبان دی ہے اگر الله تعالٰی زبان کے ذائقے کو چھین لے تو ہر چیز کا ذائقہ ایک جیسا ہوجاۓ گا، بریانی کھائ جاۓ یا مٹی کھائی جاۓ دونوں کا ذائقہ ایک جیسا ہی ہوجاۓ گا، دنیا کی گھٹیا سے گھٹیا چیز کھائی جاۓ یا دنیا کی عمدہ سے عمدہ چیز کھائی جاۓ دونوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا ۔ ہمارے پاس چلنے کیلئے دوپیر ہیں، کام کرنے کیلئے دو ہاتھ ہیں، دیکھنے کیلئے دو آنکھ ہیں، سننے کیلئے دو کان ہیں سونگھنے کیلئے ناک ہے۔ اپنی بات کو دوسروں تک پہونچانے کیلئے ، اپنے دل کے احساسات اور جذبات کو دوسروں کو سمجھانے کیلئے ہمارے پاس زبان ہے۔سوچ نے اور سمجھنے کیلئے، زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے، صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے کیلئے ہمارے پاس دماغ ہے یہ تمام کی تما اللہ تعالٰی کی نعمتیں ہیں جو اپنی عبادت میں استعمال کرنے کیلئے دی ہیں
حضرت عمررضی الله عنہ اپنے دور خلافت میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہر نکلے، باہر ایک آدمی کو دیکھا جو ہاتھ پیر سے معذور تھا ، دیکھنے اور بولنے سے بھی معذور تھا حضرت عمررضي اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کیا تم اس میں اللہ کی نعمت دیکھتے ہو ساتھیوں نے کہا یا امیرالمومنین بظاہر تو کوئی نعمت نظر نہیں آ رہی ہے۔ تو حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا کیا اس کو پیشاب نہیں ہوتا ؟ پیشاب کا ہوجانا کتنی بڑی نعمت ہے !! اگر کسی کا پیشا بند ہوجاۓ تو دن میں تارے نظر آنے لگیں گے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری نعمتیں ہیں، بدن کو راحت اور سکون پہونچا نے کیلئے اور اپنی پیاس بجھانے کیلئے ٹھنڈے پانی کا انتظام کیا گیا ہے۔ دھوپ سے بچنے کیلئے اور گرمی سے سکون حاصل کرنے کیلئے سایوں کا انتظام کیا گیا ہے، اپنی زندگی کو باقی رکھنے کیلئے صاف شفاف ہواؤں کا انتظام کیا گیا ہے۔یہ سب الله تعالٰی کی نعمتیں ہیں۔ دنیا کی تمام چیزوں کو الله تعالٰی نے انسانوں کیلئے بنائی ہیں،انسانوں کے فائدے کیلئے بنائی ہیں، اور انسان کو الله تعالٰی نے اپنی عبادت کیلئے بنایا ہے، مگر ان تمام نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ایمان ہے۔ ایمان کتنی بڑی نعمت ہے اس کا اندازہ مرنے کے بعد قیا مت کے دن ہوجاۓ گا، یا قرآن کریم کی اس ایت کے ذریعے سے لگایا جا سکتا ہے۔ الله تعالٰی نے قرآن مجید کے اندر ارشاد فرمایا
إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُۥ مَعَهُۥ لِيَفْتَدُواْ بِهِۦ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ پارہ 6 ۔ سورہ مائدہ۔ آیت 36
اگر قیامت کے دن پوری زمین سونے سے بھر دی جائے اور کافر چاہیں کہ میں یہ فدیہ میں دوں اور اتنا ہی سونا مزید دوں اور میری جان چھوٹ جائے تو ایسا نہیں ہو سکتا !!
یعنی اگر انسان ایمان کے بغیر مرجاتا ہے، دنیا کو ایمان کے بغیر چھوڑ کر چلا جاتا ہے، اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچنے کیلئے دنیا کے برابر سونا دیتا ہے تو بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتا۔۔ ۔ ۔ ۔
اللہ نے کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار دنیا کے کسی چیز پر نہیں رکھا ہے، اللہ نے کامیابی اور ناکامی کا دار و مدار ایمان اور اعمال صالحہ پر رکھا ہے۔ اگر ہم ساری زندگی اللہ تعالٰی کے سامنے سجدہ میں سر رکھ کر اس نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیں،تو اس نعمت کا شکر ادا نہیں کرسکتے ہیں۔
لیکن جو چیزیں بغیر محنت اور قربانی کے بغیر ملتی ہے، انسان اس کی قدر نہیں کرتا ہے۔ہم نے ایمان لانے کے لئے کوئی محنت اور قربانی نہیں دی ہے ہمارے باپ دادا مسلمان تھے تو ہم بھی مسلمان ہیں اسی لیے آج ہمیں اپنے ایمان کی قدرو قیمت معلوم نہیں ہے،ایمان کی قدر ان لوگوں سے پوچھئے جنہوں نے مال و دولت کو لٹا کر کے،اپنے بچوں کو یتیم کر کے،اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ایمان کو حاصل کیا تھا،
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ
صحابہ کرام کے واقعات، ہم سنتے رہتے ہیں، صحابہ کرام کے واقعات سن نے سے ہمارا ایمان تازہ ہوتا ہے۔ ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ صحابہ کرام کے واقعات ہمیں سننا چاہئے اور گھر والوں کو بھی سنانا چاہئے، حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ یہ وہ صحابی جو اسلام کے شروع میں چھٹے نمبر پر ایمان لیکر آۓ تھے، اس وقت مکہ میں کسی کا فرہ کے غلام تھے ان کا کوئی حامی اور مددگار نہیں تھا اس لئے مکہ کے ظالموں نے ان پر بہت ظلم کیا تھا۔۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت خباب رضی الله عنہ سے کہا کہ تم ان تکالیف کو بیان کرو جو تمہیں ایمان لانے کی وجہ سے پیش آئ تھیں، حضرت خباب رضی الله عنہ نے کہا یا امیرالمؤمنین آپ میری پیٹھ کو دیکھیں، جب آپ نے پیٹھ دیکھی تو کہا اے خباب ایسی کمر میں نے آج تک کسی کی نہیں دیکھی، حضرت خباب رضی الله عنہ نے کہا ایمان لانے کی وجہ سے مجھے آگ کے انگاروں پر لٹا کر گھسیٹا جاتا تھا، میری چربی اور میرے خون سے آگ بجھ تی تھی، میں ساری تکالیف کو برداشت کرتا رہا مگر پر ایمان پر فرق نہیں آیا ۔۔۔
ناظرین ! یہ واقعہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا بولنا اور سننا آسان ہے، یہ واقعہ بولنے اور سننے جیسا آسان نہیں ہے۔ بلکہ اس واقعہ کے پیچھے پریشانی ، مصیبت، ظلم و، زیادتی، اور درد کا ایک سمندر ہے، اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے اس درد کے سمندر کو پار کیا ہے۔۔
حضرت عبداللہ بن حذیفہ سھمی رضی اللہ عنہ
ایمان کی خاطر تکلیفوں کو برداشت کرنا، ایمان کے مقابلے میں آنے والی ہر چیز کو الوداع کہدینا ، مال و دولت حکومت کو چھوڑ دینا صحابہ کرام کیلۓ مشکل کام نہیں تھا،۔۔۔ حضرت عبداللہ بن حذیفہ سھمی رضی اللہ عنہ ابتداء اسلام میں مسلمان ہوۓ تھے ایک زمانہ تک آپﷺ کے ساتھ رہے، پھر مہاجرین کے دوسرے قافلے کے ساتھ ھجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرت عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو روم کے فوجیوں نے پکڑ لیا تھا ان کے ساتھ 80 صحابہ کرام کو بھی پکڑ لیا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا، بادشاہ نے نصرانیت کی دعوت دی انہوں نے نصرانیت کو قبول کرنے سے منع کردیا، پھر بادشاہ نے کہا میں تمہیں آدھی بادشاہت دونگا اگر تم نصرانیت قبول کر لیتے ہو ، حضرت عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ ہمارے نبی ﷺ نے کہا تھا کہ راۓ کے دانے کے برابر ایمان بچاکر لے جانے پر دنیا سے دس گنی بڑی جنت عطا کریگا اور یہ میرے ایمان کو آسانی سے خریدنا چاہتا ہے، حضرت عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا اگر تم پوری دنیا کی بادشاہت دو گے توبھی میں نصرانیت قبول نہیں کرونگا، بادشاہ نے کہا اس کو کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دو! جب حضرت عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو کھولتے ہوئے تیل کے پاس لے جایا گیا تو وہ رونے لگے،بادشاہ نے کہا کہ کیا ہوا موت کو دیکھ کر کے گھبرانے لگے،تمہی گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ابھی تمہارے پاس وقت ہے،ابھی بھی سوچ لو سمجھ لو اور ہمارے دین کو قبول کر لو تمہاری جان بخش دی جائے گی، حضرت عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں موت کے ڈر سے نہیں رو رہا ہوں ،میں اس لئے رو رہا ہوں میرے پاس ایک جان ہے، اگر میرے پاس سو جان ہوتی تو میں ایک ایک کر کے اللہ کی راہ میں قربان کردیتا مگر اپنے مذھب کو نہیں چھوڑ تا اور اپنے ایمان کا سودہ نہیں کرتا،
وہ لوگ ایمانی طاقت اور قوت کو دیکھ کر اور مذہب کے لیے مر مٹنے کا جذبہ دیکھ کر،حیران و پریشان و رہ گئے،، اوراس شرط پر رہا کردینے کے لئے تیار ہوگئے کہ شاہ روم کی پیشانی کا بوسہ دیں ، حضرت عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کہا میرے تمام ساتھیوں کو رہا کردوگے تو میں تیار ہوں۔ حضرت عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کافر کو بوسہ دیا اور تمام ساتھیوں کو لیکر چلے گئے۔ ۔۔ صحابہ کرام کیسے تھے، ان کا ایمان کیسا تھا، وہ ایمان سے کیسی محبت کرتے تھے وہ ایمان کی خاطر بیوی بچے، ۔۔۔۔ وہ ایمان کیلئے جان دینے کیلئے تیار تھے,
یہ ہیں صحابہ کرام جو ایمان کی خاطر دنیا کی ساری چیزوں کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں، مال و دولت،بیوی بچے اور رشتہ دار،یہاں تک کہ اپنی جانوں بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں، مگر اپنے مذہب اور ایمان کو چھوڑ کیلئے تیار نہیں ہیں ،،،۔ آج یہ ارادہ کریں اور اللہ کے گھر میں بیٹھ کر کے یہ وعدہ کریں،اگر ایمان کی خاطر وقت کی قربانی دینی پڑی تو وقت کی قربانی دیں گے،حضرت ایمان کی خاطر مال و دولت کی قربانی دینی پڑی تو مال و دولت کی قربانی دیں گے،اور اگر ایمان کی خاطرہ جان کی قربانی دینی پڑے تو انشاءاللہ جان کی قربانی دیں گے، مگر اپنی ایمان کا سودا نہیں کریں گے،،
اگر ایمان پاکر دنیا کی ساری دولت کھودی تو سمجھو کہ کچھ بھی نہیں کھویا، اگر ایمان کھوکر دنیا کی ساری دولت حاصل کرلی تو سمجھو کہ کچھ بھی حاصل نہیں کیا!! اگر ایمان ہے تو سب کچھ ہے۔ اگر ایمان نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔
اللہ کے راستے میں نکلنا، جوڑ کا ہونا، اجتماعات کا ہونا، خالی ایک روٹین کی چیز نہیں ہے،۔ یہ کوئی رسم نہیں ہے جس کو پورا کرکے اپنی زندگی کو خوش کرلیا جاۓ، بلکہ یہ اس لئے ہے تا کہ ہمارے اندر اپنے دین اور ایمان کی کمزوری کا احساس ہوجائے، آدمی کے اندر جب کسی چیز کا احساس ہوجائے تو کسی کے کہنے یا سننے کی ضرورت نہیں ہوتی، آدمی خود اس کی فکر میں رہتا ہے۔۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہیکہ الله تعالٰی ہم سب کو اپنے ایمان کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور موت تک ایمان پر قائم رہ نے کی توفیق عطا فرماۓ۔۔
آپ نیچےکمینٹ میں اپنی رائے کا اظہار کرکے ہماری حصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔۔ یا ہماری غلطیوں کو اجاگر کرکے ہمیں صحیح راہ دکھا سکتے ہیں۔۔۔ ۔
دعا یا اللہ اس کام کے لیے،بچے بوڑھے جوان مرد عورت چھوٹے بڑے سب کو قبول فرما ،یا اللہ اس پوری بستی کو اس کام کے لیے قبول فرما، یا اللہ اس کام کو گھر گھر میں،بستی بستی میں،شہر سحر میں اور پوری دنیا میں عام فرما،یا اللہ ہم سب کو دین کی خدمت کے لیے قبول فرما
1 Comments
Masha allah bahut achha
ReplyDeleteآپ یہاں اپنی رائے کا اظہارکرسکتے ہیں، آپکی کی راۓ ہمارے لئے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آپ کو پوشیدہ رکھا جائے گا 👇👇👇👇