قیادت کا مطلب

               بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم​ 

    میری اور آپ کی زندگی ایک عام سی زندگی ہے، اس میں معجزے اور کرامت نہیں ہوتے۔ ترقی اور کامیابی کیلئے جستجو انگنت محنت اور بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے، اور اس کو تعمیر کرنے کیلئے، پر خطر اور مشکل ترین راہوں پر چلنا پڑتا ہے۔جان کو پگلانا پڑتا ہے، مشکل لمحات، انتہائی کٹھن مراحل، اور تکلیف دہ راستوں پر سے گزرنا پڑتا ہے۔ تنگ گھاٹیوں کو عبور کرنا پڑتا ہے، تو کبھی لوگوں کے تعنو کو سننا پڑتا ہے۔ اور نہ کردہ گناہ کے الزامات کو سہنا پڑتا ہے۔ سمجھدار لوگ جب اس کو سمجھ لیتے ہیں زندگی کے راز کو جب پالیتیے تو وہ لوگ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے ، جہد مسلسل سے اپنا رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔ کامیابیوں کی سیڑھیوں پر جب وہ چڑھنے لگتے ہیں تو محسوس ہوتا ہیکہ  منزل ان کی تلاش میں نکلی ہے   کیونکہ زندگی ایک جنگ ہے اور اسکو  اپنے زور بازوں سے جیتنا پـڑتا ہے۔

   قیادت کا مطلب !!  اے سی کے کمروں میں بیٹھ کر،   سکون ااور اطمینان کی چہار دیواری میں قید ہو کر، پریس کانفرنس میں بولنا نہیں ہے۔  

     قیادت کا مطلب لوگوں کے کاندھوں سے کاندھے ملاکر اور اپنے مخالفین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ، اپنی قوم کی صحیح رہ رہنمائی کرنا ہے ، اور ہر آنے والی پریشانیوں کا آسان حل تلاش کرکے لوگوں کو بچانا ہے۔  قیادت ایک ایسا مرتبہ  جو پوری قوم کی کشتی کو سعادت اورخوش بختی کے ساحل پر لاسکتا ہے، اور قوم کی بدبختی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔۔۔۔ 

     قیادت کوئی آسان ا ور معمولی کام نہیں ہے، جو اے سی کے کمروں میں بیٹھ کر، عیش و عشرت اور سکون و اطمینان کی چہار دیواری میں قید ہو کر، لیٹر پیڈ پر احتجاجی بیانات درواج کروا کے،   اور اخبار و رسائل میں شائع کر کے کرلی جاۓ۔ اور اپنی کمیوں و کوتاہیوں کو پردے میں ڈال کر قیادت کا ڈھونگ کرنے سے قیادت نہیں کی جاتی، صرف سجے سجائے اسٹیج پر بیٹھ کر، اپنے خاص مریدوں، عقیدت مندوں، حلقہ ارادت میں پناہ لینے والوں کے درمیان تقاریر کر کے اور فلسفیانہ باتیں، داد و دیش حاصل کرکے قیادت نہیں ہوسکتی۔۔ 

     حقیقت سے دور، زمینی ضرورت اور بصیرت سے عاری؛ نیز ہمت، جواں مردی، شجاعت اور قوم و ملت کے مفاد کو ترجیح دئے بغیر صرف چیخ وپکار کرنے سے بھی قیادت سر انجام نہیں دی جاتی، مصلحتوں کی چادر میں تمام مدعی کو چھپا کر، اسلاف اور شانتی کے نام پر اپنے پیروؤں کو  مجبوری اور کم ہمتی کا بزدلانہ  مشورہ دے کر، قیادت کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔    اپنی تمام تر خواہشات کو پورا کرنے کیلئے، نام و نمود اور شہرت، حاصل کرنے کیلئے، اپنی خاندانی سلطنت اور  قیادت کو باقی رکھنے کیلئے،  اپنے آپ کو برتر و مافوق الفطرت مان کر تمام متبعین کو  اپنا غلام اور نوکر سمجھ کر قیادت نہیں کی جاسکتی۔

      ہم نے یہ کیا!  ہم نے وہ کیا!  دیش کی آزادی میں ہمارا یہ کردار رہا ! ایسا اور ویسا کہہ کر، ظالموں کو دہائیاں دے کر اپنی باتیں نہیں منوائی جاسکتیں؛ بالخصوص جمہوری اور اقلیتی حیثیت میں اپنی موجودگی ،  اور اپنے حق کو حاصل کرنے کیلئے صرف جلسے جلوس، اور پریس کانفرنس کا فی نہیں ہے۔  بلکہ اس کیلئے ٹکیت جیسا بننا پڑتا ہے، زمین پر جاکر، پنچایت پنچایت گھوم کر اور تمام لوگوں میں بیداری لاکر جنگ لڑی جاتی ہے، نوجوانوں اور پیروں کی جماعت تیار کر کے عوام میں پیوست کردیا جاتا ہے۔ 

      اور صبر واسقتامت کے ساتھ ڈٹ جانا پڑتا ہے، میڈیا سے لیکر تمام پروپیگنڈے اور سازشوں کو ناکام بنا کر کبھی رو کر تو کبھی الفاظ کے نشتر چلا کر قیادت مضبوط کی جاتی ہے، حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا جاتا ہے کہ ہم جو کرر ہے ہیں وہ صحیح ہے، سرکار ہمیں سمجھانے کی کوشش نہ کرے، ہماری عقلی سطح چیک کرنے اور ہمیں بیوقوف بنانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ باور کروانا پڑتا ہے کہ ہم ہماری مانگو کو منوائے بغیر ایک انچ بھی نہ ہٹیں گے، ٹکیت نے کیا کیا؟ یہی تو کیا! انہوں نے زمین سے جڑ کر تمام حالات کا مقابلہ کیا، لوگوں میں بیٹھ کر ان کی مشکلیں سنیں، انہیں یہ احساس دلوایا کہ وہی اس مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں، ان میں یہ دَم ہے کہ وہ قیادت کریں اور قوم کو ایک بڑے بحران سے نجات دلائیں، ذرا غور کیجئے! مودی جی نے علی الإعلان معافی مانگی، تینوں زرعی قوانین واپس لینے کی یقن دہانی کروائی پھر بھی وہ سرحدوں کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں؛ کیوں؟ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ چناوی جملہ ہوسکتا ہے، یہ وقتی طور پر انہیں روکنے اور راستے سے بھٹکانے کا آلہ ہوسکتا ہے، وہ مومن کی طرح سمجھدار ہیں، ایک ہی بل سے دوبارہ ڈسے جانے کے روادار نہیں ہیں  ۔۔۔۔۔ 

     یہی وہ سوجھ بوجھ ہے جس نے انہیں اس وقت عظیم انقلابی شخصیت میں بدل دیا، ان کی ایک آواز پر لوگ احتجاج چھوڑنے یا اس پر قائم رہنے پر حاضر ہیں، یہ کوئی شکوے شکایت کی بات نہیں بلکہ محاسبے اور سمجھنے کی بات ہے کہ ہمارے لوگ ناکام کیوں ہوجاتے ہیں، ہماری سیاسی پکڑ اتنی کمزور کیوں ہوگئی ہے، اور آخر کیا وجہ تھی کہ مفکر اسلام ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے شاہ بانو کیس میں کامیابی پالی تھی، اگر آپ جایزہ لیں تو ٹکیت کی تحریک اور شاہ بانو کیس میں بہت کچھ مناسبت مل جائے گی، بالخصوص تحریک کے چلن اور طور پر کافی مناسبت ملتی ہے، جب تک پتھر، روڑے اور کانٹے راستے سے ہٹا نہ دیں تب تک چین کی سانس نہ لیں، کہیں اور کسی پل سکون سے نہ بیٹھیں سی اے اے کی تحریک نے ایک خاص اثر کیا تھا اس کی  یہی وجہ تھی۔۔   اس میں نام نہاد قائدین کا کوئی رول نہ تھا، جو صرف اسٹیج ، پریس کانفرنس، اور خطوط لکھ کر قیادت کرتے ہیں، یقیناً اب انقلاب کی باری ہے، اگر اس ملک میں رہنا ہے تو ٹکیت جیسے قائدین پیدا کیجئے! اپنے آپ کو اکثریت  اور اقلیت کے سے نکالئے

                       

Leadership

        آپ نیچےاپنی رائے کا اظہار کرکے ہماری حصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔۔ یا ہماری غلطیوں کو اجاگر کرکے ہمیں صحیح راہ دکھا سکتے  ہیں۔۔۔ ۔

Post a Comment

0 Comments