اتحاد ہماری طاقت ہے

          

              بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم

       تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے یہ ساری کائنات بنائی، جس نے بغیر ستون کے اتنا اونچا اور بڑا آسمان بنایا، جس نے یہ چوڑی چکلی زمین پانی کے اوپر بچھایا، زمین کےاوپر ہرے بھرے درخت لگاۓ، رنگ برنگے پھول کھلائے ، جس نے ہوا میں اڑنے والے پرندے بناۓ جنگلوں میں رہنے والے درندے بنائے اور سمندروں میں بسنے والی مخلوق بنائی۔  تمام تعریفیں اس الله کیلئے ہیں جس نے ہم سب کو پیدا کیا  اور پیدا فرمانے کے بعد  بے یاروں مددگار نہیں چھوڑا بلکہ ہماری زندگی کا مکمل انتظام فرمایا، پیدا ہونے سے لے کر کے مرنے تک، ناکامی سے لے کر کے کامیابی تک، ہر ایک چیز کا انتظام کر دیا گیا ہے، اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے بے شمار انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔  تاکہ انسان صحیح راستے کو اختیار کرکے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرسکے ۔۔

     وَاَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ  وَاصْبِـرُوْا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ پارہ نمر10 سورہ انفال46 : اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانو اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

   اس ایت کریمہ کے ذریعے سے مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق کا حکم دیا جا رہا ہے،پیارو محبت کا حکم دیا،اور ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا حکم دیا جا رہا ہے، اختلاف ہو انتشار اور لڑائی جھگڑے سے بچنے کا حکم دیا جا رہا ہے

      دوستوں !!  ہم سب مسلمان ہیں ایمان والے ہیں، ہم جس دین کو مانتے ہیں وہ دین ہمیں اتحاد و اتفاق کا درس دیتا ہے، پیارو محبت کا حکم دیتا ہے، اور اجتماعیت کو پسند کرتا ہے۔ وہ دین اختلاف و انتشار سے پچنے کا حکم دیتا ہے، لڑائی اور جھگڑے سے دور رہنے کا حکم دیتا ہے، نفرتوں عداوت دشمنی اور اس جیسے گناہوں کو ناپسند کرتا ہے۔ جیساکہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے

        وَ  اعْتَصِمُوْا  بِحَبْلِ  اللّٰهِ  جَمِیْعًا  وَّ  لَا  تَفَرَّقُوْا۪ ۔  پارہ 4 ۔ سورہ آل عمران۔  آیت 103 ۔ 

     اور تم سب مل کراللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور آپس میں اختلاف مت کرو

    اسلام مسلمانوں کواتحاد و اتفاق کے  ساتھ اجماعتی زندگی گذارنے کی تعلیم دیتا ہے، وہ اختلاف و  انتشار اور لڑائی جھگڑے کو قطعاً برداشت نہیں کرتا، اس لئے الله تعالٰی نے  عبادت کی روح کو اجتماعیت پر رکھا ہے۔  نمازیں ہر شخص تن تنہا بھی اداکرسکتا ہے۔  نماز ہر شخص اپنی الگ الگ پڑھ سکتا ہے، بلکہ یہ طریقہ ریا و نمو اور دکھاوے کیلئے زیادہ محفوظ ہے ، اور اخلاص و للہیت سے قریب تر ہے، لیکن پنج وقتہ نمازوں کے لئے جماعت کو واجب قرار دیا، جمعہ و عیدین کے لئے گاؤں کی بڑی جامع مسجد، اور عیدگاہ میں اکٹھا ہوکر ایک امام کے پیچھے باجماعت نماز ادا کرنے کو لازم ٹھہرایا تاکہ مسلمانوں کے اندر برادرانہ مساوات باقی رہے۔ ان کے درمیان براد رانہ تعلق قائم رہے۔ اتحادو اتفاق قائم رہے اور پیارو محبت اسی طرح سے بنا رہے جیسا الله تعالٰی چاہتے ہیں ، 

__________________________________________

       کسی بھی قوم کو کایمیابی اور کامرانی کیلئے ، فتح اور نصرت حاصل کرنے کیلئے ان کے درمیان اتحاد کا پایا جانا ضروری ہے ۔     تاریخ ہمیں بتاتی ہیکہ قوموں کے عروج و زوال میں، ترقی و تنزلی میں ، اتحاد و اتفاق اور اور اختلاف و انتشار کا اہم کردار رہا ہے۔ پانی کے ایک قطرے کی ہماری نظر میں کوئی حیثیت نہیں ہے، اس کی کوئی طاقت و قوت نہیں ہے۔ لیکن یہی پانی کے قطرے مل کر سیلاب بن جاتے ہیں اور سیلاب دریا ؤں کے کناروں کو توڑ ڈالتا ہے، دریاؤں کو چیرتا یوا آگے بڑھ جاتا ہے، جہازوں اور کشتیوں کو تباہ کر ڈالتا ہے، وہ  فصلوں کو اجاڑ دیتا ہے، وہ  بستیوں کو نیستوں نعبود کردیتا ہے،  اور انسانوں کو موت کی نیند سلادیتا ہے۔  ناریل کی چھال کے ذریعے سے   کسی جانور کو نہیں باندھا جاسکتا  ، ناریل کی ایک چھال کے ذریعے سے کسی بھی جانور کو قابو نہیں کیا جا سکتا  لیکن جب بہت سی ناریل کی چھالوں کو جمع کرکے انکی  رسی بنالی جاتی ہے تو بڑے جانوروں کو باندھا جاسکتا ہے۔ ۔۔ہمارے ہاتھ میں پانچ انگلیاں ہیں، اگر ان پانچ انگلیوں کو الگ الگ کر دیا جائے تو ہمارے ہاتھ طاقت و قوت کمزور ہو جائے گی اور اس کی ہمت پست ہو جائے گی، ایک انگلی سے بھاری سامان نہیں اٹھا سکتے،ایک انگلی سے کوئی چیز نہیں کاٹ نہیں سکتے اور ایک انگلی سے ہم بہت سارے کام نہیں کر سکتے، لیکن اگر ان پانچ انگلیوں کو ملا دیا جائے،تو ان کی طاقت و قوت بڑھ جائے گی،ان کی ہمت اسمان چھونے لگے گی ، اور ان پانچ انگلیوں سے بڑے سے بڑے کام کر سکتے ہیں، بھاری سے بھاری سامان اٹھا سکتے ہیں ،اور جو چاہیں کر سکتے ہیں،

     یہی مثال ہماری زندگی کی ہے،جب تک ہم فرقوں میں بٹے رہیں گے، جب تک ہم خاندانوں میں بٹے رہیں گے ،اور جب تک ہم جماعتوں میں بٹے رہیں گے ،تب تک ہم کمزور رہیں گے،تب تک ہماری ہمت پست رہے گی ،اور ہم اکیلے رہیں گے،اور اکیلے رہ کر کے کچھ نہیں کر سکتے، لیکن ہم مل کر کے بڑے سے بڑے کام کر سکتے ہیں،اور بڑی سی بڑی طاقت کو ہرا سکتے ہیں،  ہم مل کر بڑے  پہاڑو کو زمین بوس کرسکتے ہیں، بڑے بڑے سیلابوں کو روک سکتے ہیں، اور طوفانوں کے روخ کو موڑ سکتے ہیں  ،  ہماری زندگی میں ا تحاد ایسی طاقت ہے جس کے ذریعے بڑے بڑے  مشکلوں کو آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے۔  اتحاد ہی ہماری طاقت و قوت ہے،   اتحاد میں برکت ہے۔ الله تعالٰی نے اجتماعیت پر مدد اور نصرت کا وعدہ کیا ہے۔ انفرادیت پر الله تعالٰی کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ 

    الله تعالٰی نے صحابہ کرام کی صفت نے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا

     مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ  ۔ پارہ 26۔  سورہ فتح۔  آیت 29

    محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ، آپس میں نرم دل ہیں

    الله تعالٰی نے صحابہ کرام کی صفت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا، وہ آپس میں نرم دل ہیں، وہ آپس میں پیاروں محبت کے ساتھ رہتے ہیں، وہ اپنے آپ کو دوسروے کے سامنے جھکاتے ہیں ۔  وہ آپس میں اختلاف و انتشار نہیں کرتے، وہ آپس میں لڑائی اور جھگڑے نہیں کرتے، وہ آپس نفرت نہیں کرتے، وہ مال کے نشے میں چور ہوکر ایک دوسرے کو ذلیل نہیں سمجھتے، بلکہ آپس میں پیاروں محبت کے ساتھ رہتے ہیں، میرے دوستوں! ہم سب مسلمان ہیں ایمان والے ہیں، صحابہ کرام کی زندگی ہمارے لئے  آئڈیل اور نمونہ  ہیں ، لہاذا صحابہ کرام کی زندگی کو اپناتے ہوئے، اور ان کے طریقوں پر چلتے ہوئے  ہمیں بھی اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہنا چاہئے، پیاروں محبت کو اختیا کرنا چاہئے ، اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا چاہئے۔ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرنا چاہئے۔  اختلاف و انتشار سے بچنا چاہئے ، لڑائی جھگڑے سے دور رہنا چاہئے ۔۔ اسی میں ہمارے لئے ترقی ہے اور  ،۔ اسی میں یمارے لئے خیر ہے۔ اور اسی میں ہمارے لئے بھلائی ہے۔

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے۔ فَإِنَّ يَدَ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ  ، جماعت پر الله کا ہاتھ ہوتا ہے۔   الله تعالٰی مدد ونصرت اجتماعیت  پر ہوتی ہے۔ جو کام مل جل کرکے کیاجاتا ہے، جو کام ایک ساتھ کیا جاتا ہے، جو کام اتحاد و اتفاق کے ساتھ کیاجاتا ہے  ،اورجو کام مشورے سے کیا جاتا ہے۔ اس پر الله تعالٰی کی مدد ونصرت ہوتی ہے، اس میں برکت ہوتی ہے، وہ کام آسانی کے ساتھ پورا ہوجاتا ہے، لیکن جو کام  اتحاد کے ساتھ نہیں کیا جاتا ، مل جل کر نہیں کیاجاتا اس میں اللہ کی مدد نصرت نہیں ہوتی ہے اس میں اختلاف ہونے لگتا ہے، آپس میں نفرتیں پیدا ہونے لگتی ہیں، اور وہ کام آسان ہونے کے باوجود مشکل ہوجاتا ہے مشکل ہوجاتا ہے،،اسی لیےآج ہی یہ ارادہ کیجئے کہ آج کے بعد ہم جو بھی کام کریں گے وہ مشورے کے ساتھ کریں گے،وہ کام گھر کا ہو یا باہر کا ، اپنا کام ہو یا امت کا، چھوٹا ہو یا بڑا کوئی بھی کام ہو مشورے کے بغیر نہیں کریں گے ۔۔ کیونکہ مشورے میں خیر ہے اس میں برکت ہے

اس لئے ہمیں ہر کام مل جل کرکے کرنا چاہئے، اتحادو اتفاق کے ساتھ کرنا چاہئے، مشورے سے کرنا چاہئے ۔  تاکہ ہمارے درمیان اتحادو اتفاق اور پیارو محبت بنا رہے 

    یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآىٕلَ لِتَعَارَفُوْاؕ-اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ -اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ  ۔ پارہ 26  ۔  سورہ حجرات۔  آیت 13  ۔  

  اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ماں باپ سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، (کہ کون کس قبیلے اور کس خاندان کا ہے۔ ) بیشک اللہ کی نظر میں تم میں سب سے زیادہ معزز و محترم وہ شخص ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ بیشک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے ولا ہے

   قرآن کریم کے مطابق الله تعالٰی نے ہم سب کو  ایک ماں باپ سے پیدا کیا ہے اور پیدا کرنے کے بعد  الگ الگ  خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم کردیا تا کہ ہم  ایک دوسرے کو پہچان سکیں کہ  کون کس خاندان کا ہے، اور کون کس قبیلے کا ہے، اس دنیا میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں اور  عربوں خربو انسانوں میں ایک دوسرے کو پہچان نے میں مشکل نہ ہو ۔۔۔ 

     صرف پہچان کیلۓ ہمیں الگ الگ خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔   آپس میں ایک دوسرے کے اوپر فخر کرنے کیلئے، ایک دوسرے سے اپنے آپ کو اعلیٰ سمجھنے کیلئے،  ایک دوسرے سے اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کیلئے، اور ایک دوسرے کے اوپر تکبر کرنے کیلئے  ہمیں الگ الگ خاندانوں اور قبیلوں میں تقسیم نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ صرف پہچان نے کیلئے ہمیں  الگ الگ خاندانوں اور  قبیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔، بحیثیت انسان ہم سب برابر ہیں   کوئ بڑا اور چھوٹا نہیں ہے،  کسی کو کسی کے اوپر فضیلت نہیں ہے، کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ نہ مال کی وجہ سے، نہ دولت کی وجہ سے ، نہ خاندان کی وجہ سے،اور نہ پہچان کی وجہ سے۔  آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔۔  یَا أَیُّہَا النَّاسُ! اَلَا إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لَاَعْجَمِیٍِّ عَلٰی عَرَبِیٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلٰی أَسْوَدَ، وَلَا لِأَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوٰی،

آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:لوگو! تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، خبردار! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، مگر تقویٰ کے ساتھ۔

   آج اپنے معاشرے کو دیکھیں،اپنی سو سائٹی کو دیکھیں اور اپنے گرے بان میں جھانک کر دیکھیں آج ہمارے معاشرے میں  اپنے آپ کو بڑا سمجھا جاتا ہے  مال کی وجہ ،  اپنے آپ کو بڑا سمجھا جاتا ہے خاندان کی وجہ سے،  اپنے آپ کو بڑا سمجھا جاتا ہے پہچان کی وجہ سے ۔اپنے آپ کو بڑا سمجھا جاتا ہے دولت کی وجہ سے ۔ اپنے آپ کو بڑا سمجھا جاتا ہے پیسے کی وجہ سے۔۔  اپنے آپ کو بڑا تو سمجھا جاتا ہے،  مگر سامنے والے کو  ذلیل حقیر اور کمتر بھی سمجھا جاتا ہے اس کو گری ہوئی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔  ایسے انسانوں کو سوچنا چاہیےکہ جس چیز کو وہ فضیلت کا معیار سمجھ رہے ہیں۔ جس چیز کو وہ بڑا ہونے کی دلیل سمجھ رہے ہیں ۔ جس بنیاد پر گردنوں کو اونچا کرکے گھوم رہے ہیں۔ جس بنیاد پر تکبر اور فخر کے ساتھ گھوم رہے ہیں وہ فضیلت کی دلیل نہیں ہے، وہ بڑا ہونے کا معیار نہیں ہے، وہ فخر کرنے کی چیز نہیں ہے، بحیثیت انسان ہم سب برابر ہیں۔ 

   اگر شریعت میں فضیلت کا کوئی معیار ہے رب کی نگاہ میں کوئی اعلی ہے۔ کسی کا درجہ اگر بلند ہے تو اس کو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے، الله تعالٰی قرآن مجید کے پارہ نمبر 26 اور سورہ حجرات کی آیت نمبر 13 پر ارشاد فرماتے ہیں  اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ 

    الله تعالٰی فرماتے ہیں کہ ہمارے یہاں فضیلت کامعتبار صرف اور صرف تقوی ہے، جو شخص تقوی اختیار کرتا ہے  ، جو الله تعالٰی کا فرما بردار ہے، جو الله تعالٰی کی اطاعت کرتا ہے، جو الله تعالٰی کے حکموں کے مطابق زندگی گزار تا ہے۔ گناہوں سے گریز کرتا ہے وہ الله تعالٰی کے نزدیک معزز اور افضل ہے، 

    اگر ایک غریب، فقیر اور محتاج انسان اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے نماز روزن کی پاوندی کرتا ہے، ذکر و اذکار میں مشغول رہتا ہے۔ تو یہ انسان اس مالدار سے بہتر ہے جو لاکھوں کروڑوں کا مالک ہے۔ جس کے پاس مال و دولت کے انبار ہیں، لیکن دین داری نہیں ہے، تقوی شعاری نہیں ہے، پرہیز گاری نہیں اور قرآن و سنت سے کو سوں دور ہے۔ بحیثیت انسان ہم سب برابر ہیں ، اسلئے ہمیں کسی کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے، دوسروں کو ذلیل اور حقیر نہیں سجھنا چاہئے ، اگر کسی کو بڑا بننا ہے تو اس کو چاہئے کہ تقوی اختیار کرے  الله تعالٰی اس کو بڑا بنادیگا      ۔۔۔۔۔ 

   آپ صلی الله عليه وسلم   نے مسلمانوں کی اتحاد کی مثال کو  بیان کرتے ہو ۓ فرماتے ہیں 

     مَثَلُ المُؤْمِنِينَ في تَوَادِّهِمْ وتَرَاحُمِهِمْ وتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الجَسَدِ إذا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى له سَائِرُ الجَسَدِ بالسَّهَرِ والحُمَّى ۔۔۔۔  صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْبِرُّ وَالصِّلَةُ وَالْآدَابُ  | بَابٌ : تَرَاحُمُ الْمُؤْمِنِينَ وَتَعَاطُفُهُمْ وَتَعَاضُدُهُمْ

   ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے فرماتے  ہیں’’ ایمان والوں کی مثال ایک دوسرے سے محبت کرنے میں  ، ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرنے میں، اور ایک دوسرےکی تعاون کرنے میں  ایک جسم کی طرح ہے۔اگر جسم کے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ پورا جسم بے قرار ہوجاتاہے ۔ 

     آپ ﷺ فرماتے کہ  مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں ، اگر جسم کے ایک اعضاء کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے بے قرار ہوجاتاہے، اور پورا جسم پریشان ہوجاتا ہے۔ ، ہمارے جسم کے  سارے اعضاء الگ الگ ہیں، ہاتھ الگ ہے، پیر الگ ہے، آنکھ اور کان الگ ہے، مگر ہم سارے جسم کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اگر جسم کے ایک اعضاء  کو چوٹ لگتی ہے تو سارے جسم کو درد  ہوتاہے۔ اگر جسم کے ایک اعضاء کو تکلیف ہوتی تو سارے جسم کو پریشانی ہوتی ہے،  اور ہم سب مسلمان بھی ایک جسم کی طرح ہیں ، ہم کہیں بھی ہو،کسی بھی ملک میں ہو ،اور دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، اگر ایک مسلمان کو پریشانی ہوتی ہے تو  سارے مسلمانوں کو اس پریشانی کا احساس ہونا چاہئے،  اگر ایک مسلمان کو تکلیف ہوتی ہے تو سارے مسلمانوں کواس تکلیف کا احساس ہونا چاہئے ، اگر ایک مسلمان کو درد ہوتاہے تو سارے مسلمانوں کو اس درد احساس ہوناچاہئے۔۔۔۔۔۔  

   یہ صفت ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جب ہمارے اندر یہ صفت پیدا ہوگی تب ہمارے درمیان  اتحاد پیدا ہوگا ، اور جب اتحاد پیدا ہوگا تو ہماری طاقت مضبوط ہوگی ،آج وقت کا تقاضا ہے  اور ہماری ضرورت ہے کہ تمام طرح کے اختلافات کو ختم کرکے، لڑائی جھگڑے کو مٹا کر کے، نفرتوں عداوت کو محبت میں تبدیل کر کے اپنی صفوں کے درمیان اتحاد پیدا کریں اور اتحاد کی اس مثال کو دوبارہ قائم کرنی پڑے گی جو صحابہ کرام نے کی تھی۔۔۔۔۔ اور جب ہماری طاقت مضبوط ہوگی تو پھر ہمیں کو جھکا نہیں سکتا ، ہمیں کوئی ڈرا نہیں سکتا ۔۔۔ 

   حضرت سیدنا ابو جہم بن حذیفہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ،غزوہ یرموک کے دن میں اپنے چچا زاد بھائی کو تلاش کر رہا تھا اور میرے پاس ایک برتن میں پانی تھا۔ میرا یہ ارادہ تھا کہ میں زخمیوں کو پانی پلاؤں گا۔ اتنی ہی دیر میں مجھے میرے چچا زاد بھائی نظر آئے۔ میں ان کی طرف لپکا دیکھا تو وہ زخموں سے  چُور اور خون میں لت پت تھے، میں نے ان کے چہرے سے خون صاف کیا اور پوچھا: '' کیا تم پانی پیؤ گے انہوں نے گردن کے اشارے سے ہاں کی تو میں نے پانی کا پیالہ ان کی طرف بڑھا دیا ۔ ابھی انہوں نے برتن منہ کے قریب ہی کیا تھا کہ اچانک کسی زخمی کے کراہنے کی آواز آئی، فوراً پیالہ میری طرف بڑھایا اور کہا ، جاؤ پہلے اس زخمی کو پانی پلاؤ میں دوڑ کر وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ حضرت سیدنا عمر و بن العاص رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کے بھائی حضرت سیدنا ہشام بن العاص رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ تھے ث۔ میں نے ان سے پوچھا: ''کیا تم پانی پینا چاہتے ہو؟ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں نے ان کو پانی دیا ۔ اتنے میں ایک اور زخمی کی آواز آئی، تو انہوں نے فرمایا: ''جاؤ، پہلے میرے اس زخمی بھائی کو پانی پلاؤ۔'' میں دوڑ کر وہاں پہنچا تووہ بھی جامِ شہادت نوش فرما چکے تھے، میں واپس حضرت سیدنا ہشام بن العاص رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کے پاس آیا تو وہ بھی اپنے خالقِ حقیقی عزوجل کی بارگاہ میں جا چکے تھے۔ پھر میں اپنے چچا زاد بھائی کے پاس آیا تو وہ بھی واصلِ بحق ہو چکے تھے۔

     یہ ہے صحابہ کرام کی قربانی یہ ہے صحابہ کرام کے درمیان پیاروں محبت اپنی تکلیف کو برداشت کیا مگر اپنے ساتھی کو تکلیف میں دیکھنا گوارہ نہیں کیا

   کیا کبھی ہم ایسی قربانی دے سکتے ہیں میرے نوجوان دوستوں بتاؤ کیا ہم ایسی قربانی دے سکتے، ایسی قربانی دینا تو بہت دور کی بات ہے کیا کبھی ہم نے خود پیاسا رہ کرکے دوسروں کو پانی پلایا ہے، ؟ کیا کبھی ہم نے خود بھوکا رہ کرکے دوسروں کو کھانا کھلایا ہے۔؟ دوسروں کی مدد تو ہم نہیں کرسکتے ، مگر ہم دوسروں کی ترقی کو دیکھ کر جلتے ہیں ، دوسروں کی شہرت کو دیکھ کر نفرت کرتے ہیں، دوسروں کو گرا نے کے چکر میں رہتے ہیں، ایک دوسرے سے جلنا، ایک دوسرے سے نفرت کرنا ، ایک دوسرے کی غیبت کر نا، یہ ایمان میں نہیں ہے یہ ہمارے دین میں نہیں ہے۔ جب تک ہم ایک دوسرے سے جلتے رہیں گے، جب تک ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے رہیں گے، جب تک ہم ایک دوسرے کی غیبت کرتے رہیں گے تب تک ہمارے درمیان اتحاد پیدا نہیں ہوسکتا ، آج امت کو اتحاد کی سخت ضرورت ہے جب


              





Post a Comment

0 Comments