تعلیم کی ضرورت

      الله تعالٰی نے بے شمار مخلوقات پیدا کی ہیں ، بڑی مخلوقات پیدا کی ہیں اور چھوٹی چھوٹی مخلوقات بھی پیدا کی ہیں، انہیں مخلوقات میں سے ایک مخلوق انسان ہے، الله تعالٰی نے تمام مخلوقات میں انسان کو افضل اور اعلی بنایا ہے، اور انسان کو تمام مخلوق کا سردار بنایا ہے، حالانکہ انسان سے بڑی مخلوقات ہیں اور انسان سے بہتر بھی مخلوق ہیں، جیسے فرشتے یہ انسان سے بڑے  بھی ہیں  اور گناہوں سے بھی پاک ہیں ، ان کو افضل، اور اور تمام مخلوق کا سردار ہونا چاہئے تھا مگر الله تعالٰی نے انسانو کو سردار بنایا ہے اس کی وجہ علم ہے علم کی وجہ سے الله تعالٰی نے انسان کو یہ فضیلت عطا کی ہے۔ 

  قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الَّـذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّـذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْن

      کہہ دو کیا علم والے اور بغیر علم والے برابر ہو سکتے ہیں

  علم چاہے دنیاوی یو یا اخروی انسان کو عزت دیتا ہے، انسان کو ترقی یافتہ بناتا ہے، علم انسان کو دوسرے انسان سے ممتاز کرتا ہے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جگہ جگہ پر علم کی فضیلت کو بیان کیا ہے، اور ایسی بے شمار احادیث ہیں جو علم کی فضیلت کو بیان کرتی ہیں ، اور مذہب اسلام کی ابتداء بھی علم کے ذریعے سے ہوتی ہے ،  مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ، آج اسی خدا کے ماننے والے ، آج اسی نبی کو ماننے والے ، اور مذہب اسلام کو ماننے والے یعنی مسلمان ہی علم میں سب سے زیادہ پیچھیں ہیں ،

ذرا ہم زمانہ جاہلیت کی طرف چلتے ہیں اسلام سے پہلے کے معاشرے کی طرف چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ، تعلیم سے پہلے ان کی کیا حالت تھی اور تعلیم نے کیسا رنگ دکھایا، تعلیم نے لوگوں کو ،اور لوگوں کی زندگیوں کو معاشرے کو اور علاقے کو کیسے بدلدیا ، ۔۔ زمانہ جاہلیت کی برائی۔۔زمانہ جاہلیت میں وہ تمام برائیاں پائی جاتی تھیں جو نہیں پائی جانی تھی جیسے زندہ بچیوں کو درگور کردینا، چھوٹی چھوٹی باتو پر لڑائی کر نا، غلاموں اور کمزوروں پر ظلم کرنا، اپنے آپ کو بڑاسمجھ کر دوسروں کو ذلیل اور حقیر سمجھنا۔

  اقۡرَأۡ بِٱسۡمِ رَبِّكَ ٱلَّذِي خَلَقَ۔۔ خَلَقَ ٱلۡإِنسَٰنَ مِنۡ عَلَقٍ۔۔ ٱقۡرَأۡ وَرَبُّكَ ٱلۡأَكۡرَمُ۔۔ٱلَّذِي عَلَّمَ بِٱلۡقَلَمِ۔۔ عَلَّمَ ٱلۡإِنسَٰنَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡ۔

    پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔. جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔۔ اے نبی پڑھئے اور تیرا رب ہی سب سے زیادہ کرم والا ہے، جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا، جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا۔ 

    قرآن کریم کی یہ پانچ آیتیں جو سب سے پہلے نازل کی گئی تھی ۔ اور یہ پانچو آیتیں علم سے متعلق ہیں ۔ان میں پڑھنے کا حکم دیا جارہاہے ، علم حاصل کرنے کا حکم دیا جارہاہے ، مذہب اسلام کی ابتدا علم کے ذریعے سے کی جارہی ہے ، ابھی نماز کا حکم نازل نہیں ہوا ہے، روزے کا حکم نازل نہیں ہوا ہے ، زکات کا حکم نازل نہیں ہوا ہے ، حج کا حکم نازل نہیں ہوا ہے ، مگر پڑھنے حکم نازل ہوچکا ہے ،علم حاصل کرنے کا حکم نازل ہو چکا ہے ، اور زمانہ جاہلیت کو بدلنے کی شروعات تعلیم کے ذریعے کی جارہی ہے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کی صرف ترغیب ہی نہیں دی بلکہ اسکو اپنی زندگی میں کرکے بھی دکھا یا ہے، جب تک آپ مکہ میں دین کی تبلیغ کرتے رہے اور جو لوگ بھی مسلمان ہوتے انہیں مکہ میں  ایک جگہ تھی دار ارقم تعلیم دی جاتی تھی انہی پڑھایا جاتا تھا۔

  جب مکہ کے کافرو نے مسلمانوں پر وہاں کی زندگی کو تنگ کردیا ، اور مسلمانوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے، اور مدینہ جانے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانوں کی ترقی کیلئے ،اور انکی تعلیم و تربیت کیلئے مسجد نبوی میں ایک چبوترہ بنواگیا ، جس کو اصحابِ صفہ کے نام سے جانا جاتا یے ،اصحاب صفہ یہ وہی جگہ ہے جہاں صحابہ کرام کو تعلیم و تربیت دی جاتی تھی ،یہ وہی جگہ ہے جہاں بڑے بڑے صحابہ کرام تعلیم و تربیت حاصل کرتے تھے۔

      سن دو ہجری میں مسلمانوں اور کافروں کے درمیان سب سے پہلی جنگ ہوئی تھی جس کو جنگ بدر کہا جاتا ہے، اور جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی تھی اور کافروں کو رسوا کیا تھا ۔ اور بہت سارے کافروں کو قیدی بناکر لایا گیا تھا ان سے کہا گیا تھا کہ اگر تم پیسے دے کر اپنے آپ کو آزاد نہیں کرا سکتے تو تمہارے پاس ایک راستہ ہے کہ تم مدینہ کے بچوں کو پڑھاؤ ، ایک آدمی دس بچوں کو پڑھاۓگا اور جس دن مدینہ کے بچے پڑھنا سیکھ جائیں گے اس دن تم آزاد ہو جاؤ گے، الله کے نبی نے ذہن سازی کی ترغیب دی اور اس کا انتظام بھی کیا۔

       نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے تعلیم و تربیت حاصل کی اور نبی کی صحبت اختیار کی تو الله تعالٰی ایسی بلندی عطا کی کہ آج تک ان کی بلندیوں کے چرچے ہیں ، خالق کائنات نے انہیں ایسی عظمت عطا کی عظمتوں اور چاہتو کے بڑے بڑے مدعی ان کے پیر کے ٹھوکر بنے انہوں نے تاج و تخت اور قیصرو کسریٰ کو اپنے پیرو تلے رودنھ ڈالا ،یہی وہ لوگ تھے جنہیں ان پڑھ اور بدھوں کے نام سے جانا جاتا تھا، یہ لوگ علموحکمت سے کھالی تھے ، یہ انٹو کے چرواہے تھے، دنیا کی نظر میں ذلیل و حقیر سمجھے جاتے تھے، لیکن جب انہیں لوگوں نے تعلیم و تربیت حاصل کی، اور علم و حکمت سے آراستہ ہوۓ توپھر انکی زندگیاں بدلی ، ان کا معاشرہ بدلا ، انکے حالات بدلے ، وہ لوگ اپنے زمانے کے بادشاہ بن گئے، قوموں کے رہبر اور اور امام بن گئے، دنیا کو ضلالت و گمراہی اور تاریکی سے نکال کرکے صحیح راستہ دکھانے لگے،،اور دنیا کو زنگی طریقہ سکھانے لگے۔ 

    آخر اس کی کیا وجہ تھی کل تک جنہیں جاہل اور ان پڑھ سمجھا جاتا تھا لیکن آج وہی لوگ دنیا کو تعلیم دے رہے ہیں ، کل تک جنہیں ذلیل و حقیر سمجھا جاتا تھا آج انہیں عزت کی نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے ، یہ تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا، یہ تعلیم کا ہی نتیجہ تھا جس نے انہیں عزت دار بنا دیا تھا، الله تعالٰی فرماتے ہیں یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ (۱۱) اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جنہیں علم دیا گیا اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبردار ہے۔

__________________________________

    آج ہمارے معاشرے کا کیا حال ہے ہم  اچھی طرح جانتے ہیں۔ آج ہمارے بچے کدھر جا رہے ہیں، اور کہاں جا رہے ہیں، ہم اس کو دیکھ رہے ہیں، اور ہماری آنے والی نسلوں کا کیا ہوگا ، ہم آج کے بچوں کو دیکھ کر اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ 

   آج ہمارے بچے بربادی کی طرف جا رہے ہیں، ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے ، ان کا آگے کی زندگی کا کوئی پلاننگ نہیں ہے۔  انہیں آگے چل کرکے کیا کرنا ہے، کیا بننا ہے، کیسے زنگی  گزارنی  ہے، اور  کیسےایک اچھا انسان بن کر کے زندگی کو بہتر بنانا ہے ، کسی چیز کے بارے میں معلوم نہیں ہے، ماں باپ ان کو کھلا رہے ہیں؛ ان کی ہر ضرورت کو پورا کر رہے ہیں وہ عیش مستی میں زندگی گزار رہے ہیں،  بالکل جانوروں کی طرح کھاتے ہیں سوتے ہیں، اور زندگی گزارتے ہیں۔  نہ زندگی کا کوئی مقصد ہے، نہ والدین کیلئے کوئی فکر ہے۔ نہ آنے والی زندگی کے بارے میں کوئی تڑپ اور احساس ہے  کچھ بھی نہیں ہے۔ ۔۔ اس کی کیا وجہ ہے، کس چیز کمی کی بنیاد پر ہمارے معاشرے کی یہ حالت ہوئی ہے،  اگر اس پر غور و فکر کیا جائے توجہاں اسکی بہت ساری وجہ ہو معلوم ہوتی ہیں، ان میں سے ایک بڑی وجہ  تعلیم سے دوری ہے  تعلیم کے کم ہونے کی وجہ سے ہی  معاشرے کی اور ہمارے بچوں کی ایسی حالت ہے۔۔ 

     یہی وجہ ہیکہ دس پندرہ اور بیس سال کےجن بچوں کو اسکول میں ہونا چاہئے تھا، جن کومدرسہ میں ہونا چاہئے تھا ، جن کو مکتبوں میں ہونا چاہئے تھا، جن کی چوبیس گھنٹے کی زندگی ٹائم ٹیبل کے مطابق ہونی چاہئے تھی کہ کب مدرسے جانا ہے، کب اسکول جانا ہے، کب مکتب جانا ہے۔اور کب اس کی تیاری کرنی ہے۔ مگر آج ہمارے بچوں کی زندگی کا کوئی ٹائم ٹیبل نہیں ہے ۔ آج ہمارے بچوں کی زندگی موبائلو میں ٹیلیویژن میں اور دوستو کے ساتھ بکواس کرنے میں گزررہی ہے ۔۔ آج ہمارے جن بچوں کے ہاتھوں میں کتاب کاپی اور قلم ہونا چاہئے تھا  مگر آج ان کے ہاتھوں میں بڑے بڑے موبائل ہیں۔ آج جن بچوں کو کو کتابیں پڑھنے اور مطالعہ کرنے میں وقت لگانا چاہئے تھا لیکن آج وہ بچے فلمیں دیکھنے، گانے سننے اور گیم کھیلنے میں اپنا وقت لگا رہے ہیں، جن بچوں کو گھر میں رہ کر ماں باپ کی مدد کرنی چاہئے تھی ، اور اچھی تربیت حاصل کرنی چاہئے تھی،  لیکن آج وہی بچے چوک پر، چوراہے پر، جوؤ کے اڈوں پر، شراب کے اڈوں کے آس پاس مست نظر آتے ہیں ، ابھی زندگی کی شروعات ہے اور نشہ آور چیزوں کے عادی بن چکے ہیں۔۔۔، آج جن بچوں کو اپنا رہبر اور ہیرو نبی ﷺ کو بنانا چاہئے تھا، صحابہ کرام کو بنانا چاہئے تھا آج وہ بچے اپنا ہیرو ناچنے والے کو بنا رہے ہیں اور ان کی زندگی کی ہر ایک چیز کو فالو کرنے کی کوشش کررہے ہیں. جس کی وجہ سے ہمارے بچے صحیح راستے کا انتخاب نہیں کر پارہے ہیں 

    یہ ماں باپ کہ ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دیں، اچھی تربیت دیں۔ اور اچھا ماحول دیں ، اگر ہمارے بچوں کی بنیاد ٹھیک ہوگی تو اس پر بن نے والی  عمارت بھی اچھی ہو گی  اگر ہمارے بچوں کی بنیادے  خراب ہوگی تو اس پر بن نے والی عمارت بھی خراب ہو گیا،  اگر ہمارے بچے شروع سے ہی کھیلنے کودنے اور ناچ گانوں میں لگے رہے، اگر ہمارے بچے چوک پر، چوراہے پر، جوؤ کے اڈوں پر،اور شراب کے اڈوں کے آس پاس مست نظر آتے ہیں ، تو ہمارے بچوں کا مستقبل خطرے میں ہے ، اس لئے ہمیں اپنے بچوں کیلئے  شروع ہی سے تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ہے، اور ان کی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہے۔   تب جاکر ہمارے بچے عزت دار اور ترقی یافتہ بنیگیں 

   اگر اپنے معاشرے کو ٹھیک کرنا ہے، اپنے گھر کو پرسکون بنانا ہے، اور اپنے بچوں کو عزت دار اور ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہو تو اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ معاشرے میں بہترین زندگی گزارے، اور بڑھاپے میں ہمار سہارا بنے تو اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دیجئے ، اچھی تربیت دیجئے ،اور اور اچھی صحبت دیجئے ،  اور ایسی تربیت کرنی ہیکہ وہ شرابی، جواری، نشیڑی چور، اچکے اور اس جیسے لوگو کی کبھی صحبت اختیار نہ کرے اگر ہمارے بچے عزت دار اور ترقی یافتہ بھی ہونگے تو ان لوگوں کی صحبت میں رہ کر انکے جیسے ہو جائں گے، اس لئے اپنے بچوں پر نگاہ رکھئے کہا جاتے ہیں، کس سے ملتے ہیں، کیا کرتے ہیں، یہ جاسوسی کیلئے نہیں بلکہ ان کی بہتری کیلئے اور ان کے مستقبل کو روشن بنانے کیلئے 

     

اپنے بچوں کو آنے والے دور کے لیے تیار کریں، جسمانی طور پر بھی ذہنی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی۔ 

ان کو اردو انگریزی اور عربی لازمی طور پر سکھائیں، اسلامی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں مکمل آگاہ کریں... 

اپنے بچوں کو لازماً ہنر سکھائیں، کوئی نہ کوئی ہاتھ کا کام جو ان کو مصروف بھی رکھے اور جس سے آنے والے وقت میں یہ کارامد ہو سکیں۔

سلطان عبدالحمید کارپینٹر تھے، لکڑی سے بنایا ہوا ان کا فرنیچر آج بھی محفوظ ہے۔

سلطان سلیمان زیورات بناتے تھے...

اورنگزیب بادشاہ قرآن کریم لکھتےتھے..

اپنے بچوں کی جسمانی اور ذہنی طور پر لازماً ایسی تربیت کریں کہ مشکل اور نامساعد حالات میں وہ برداشت کرنے کے قابل ہوں، جس طرح بواۓ سکاوٹ یا کیڈٹ کی تربیت ہوتی ہے، جنگل میں خیمہ لگانا، آگ جلانا، کھانے پکانا، شکار کرنا اور ہتھیار چلانا۔

آج کل ہمارے بچے بہت آرام طلب اور نازک ہو چکے ہیں، ماضی میں ہمارا تمام تر تعلیمی نظام بچوں کو دین اور ادب کے ساتھ ہنر بھی سکھاتا تھا، تمام مسلمان اپنے ہاتھوں میں مخصوص ہنر رکھتے تھے اور ہاتھ سے کام کرتے تھے...

کوئی لوہے کا کام جانتا تو کوئی لکڑی کا، کوئی کپڑا بناتا تو کوئی چمڑے کا، کوئی مرغبانی کرتا تو کوئی گلہ بانی یا کاشتکاری...آگے آنے والا دور مشکلات اور جنگوں کا دور ہے، اپنے بچوں کو اس کے لئے تیار کریں اب ڈگریاں ہاتھ میں لے کر کالج سے نکل کر نوکریاں تلاش کرنے کا دور ختم ہوگیا..بہت سے لوگ ابھی بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ دنیا دوبارہ پرانی ڈگر پر واپس چلی جائے گی، آپ ہوش میں آ جائیں دنیا بدل گئی ہے، اب دنیا دوبارہ اس ڈگر پہ کبھی نہیں لوٹے گی...

      

education

                         










Post a Comment

0 Comments