شاہین پرندہ

                بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم​

    اس مضمون میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے کچھ اقوال  نقل کئے گئے ہیں، شاید آپ کو پسند آئنگے

     الله تعالٰی نے بیشمار حیوانات، چرندے اور پرندے اس دنیا میں پیدا فرماۓ ہیں ، اگر ہم ان کو گننا چاہیں یا ان کو شمار کرنا چاہیں تو یقیناً ہم ناکام ہونگے ان کی صحیح تعداد اللہ تعالی جانتا ہے۔ ان پرندوں اور چرندوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی صفت کی وجہ سے بہت زیادہ مقبول اور مشہور ہیں، ان کی مقبولیت اور شہرت کا یہ عالم ہیکہ بہت سارے ملک نے ان کو اپنا پہچان بنالیا ہے۔ ان میں چند کے نام یہ ہیں ، شاہین، کبوتر مور، شیر، چیتا اور ہاتھی  وغیرہ ، یہ وہ مخلوق ہیں جو لوگوں درمیان بہت زیادہ مشہور ہیں،۔   ہم اس مضمون میں ایسے پرندے کا تذکرہ کرنے جارہے ہیں ، جو عالمی طور پر اپنے مخصوص عادتوں جرأت، بہادری، غیرت و حمیت، وفاداری، درویشی، اور جفا کشی کیلئے مشہور ہے، میرا اشارہ اس پرندے کی طرف ہے جس کو باز، شکرہ، اور شاہین کے نام سے جانا جاتا ہے۔

            علامہ اقبال 

           پرواز ہے دونوں کی ایک فضاء میں ۔ 

        مگر گدھ کا جہاں اور ہے،  شاہین کا جہاں اور ہے۔ 

    یعنی شاہین اور گدھ دونوں ایک فضاء میں اڑتے ہیں لیکن گدھ شاہین کی بلند پرواز کو نہیں چھوسکتا ، یہی مسئلہ مسلمانوں کا ہے، اس دنیا میں بہت ساری قومیں ہیں مگر مسلم قوم جیسی بہادریکسی قوم میں نہیں ہے۔

   

           نہی تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گمبد پر۔۔

            تو شاہی ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں 

     یعنی شہنشاہوں کے محلوں میں اور ان کے  گنبدوں میں  شاہین اپنا آشیانہ نہیں بنایا کرتا ۔ بلکہ یہ کام تو کبوتر کرتے ہیں جو شاہین کے مقابلے میں  بڑے کم ہمت، آرام پسند اور کمزور دل ہوتے ہیں،یہ لوگوں کی غلامی کو پسند کرتے ہیں  اور دوسروں کے بھروسو پر رہتے ہیں۔۔۔  جب کہ شاہین بہادر، نڈر اور جرات مند ہوا کرتا ہے، وہ پہاڑوں کے چٹانوں میں میں آشیانہ بنا کرکے آزادی کی زندگی گزار تا ہے۔ وہ کھلے ہوۓ آسمان ، کشادہ صحراؤں اور خلوت نشینی کو ترجیح دیتا ہے ۔۔۔ 

      ہم سب کامیابیوں اور ترقیوں کی تلاش رہتی ہے، صبح اور شام اس فکر میں رہتے ہیں  کہ ان کا حصول ممکن ہو جائے، حالانکہ ایک طویل عرصے سے ہم ایسا کرتے ہوئے آرہے ہیں، لیکن حقیقی کامیابی اب تک ہمارے ہاتھ نہیں آئی۔ کامیابی حاصل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہیکہ ہم نے اپنے آپ کو ملکوں، علاقوں،  خطوں اور گو شوں میں  محدود کرلیا ہے۔ اگر ہم اپنی پرانی تاریخ دہرائیں تو یقیناً آج بھی کامیاب ترین قوم بن کر ہم ابھر سکتے ہیں۔۔۔ ہم پیچھے مڑکر اپنی تاریخ دیکھتے ہیں، ایک زمانہ تھا  جب ہم ماوراء النہر کے لالہ زاروں میں خیمہ زن ہوتے تھے۔ کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں خوفناک اور دہشت ناک جنگلوں میں اذانیں دیتے تھے۔ کبھی دجلہ فرات کے کناروں پر وضو کرتے تھے۔ لیکن جب سے ہم نے محلو اور بنگلو کی زیبو زینت اور تعیش سے فریب کھایا ہے۔ ریشم کے بستروں سے دل لگایا ہے، دنیاوی چمک دمک اور تہذیبی تصادم کی چکا چوند نے ہماری آنکھوں کو خیرہ کردیا ہے۔ اور آسائشوں کی طلب اور جست جو نے  ہمارے پیروں میں زنجیریں ڈالدی ہیں، اور ہمیں اس طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہیکہ ان چیزوں سے جدائی کا تصور بھی ہمارے دلوں کو جھنجھوڑ نے لگتا ہے۔ تو اسی وقت سے ہم تنزلی کا شکار ہوتے چلے گئے

         یہ یورپ۔ یہ پچھم چکروں کی دنیا

         مرا نیلگوں آسماں بیکرانہ  

      مطلب یہ ہیکہ اپنے آپ کو سمتوں اور علاقوں میں وہ لوگ محدود کرتے ہیں،جو کمزور اور بزدل ہوتے ہی جن کی قوت ارادی، اور حوصلوں کی چنگاری کو آسمان کی برف باری نے ہمیشہ کیلئے سرد کردیا ہو ۔  ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام ایک عالمی مذہب ہے وہ کسی علاقے ، اور کسی ملک کے ساتھ مقید نہیں ہے، پوری دنیا کی ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ہے، ہمیں دنیا میں اپنے لئے نہیں بلکہ پوری امت کیلئے جینا ہے ۔ اگر ہم اپنے آپ کو کسی ایک ملک یا ایک خطے کے ساتھ جوڑ لینگے تو مرد مؤمن کا جو فریضہ ہے اس سے راہ فرار اختیار کرنا لازم آئیگا ، جو کسی بھی صورت درست نہیں ہے

         گزر اوقات کرلیتا ہے ، کوہ و بیاباں میں 

           کہ شاہین کیلئے ذلت ہے کار آشیا بندی 

   علامہ فرماتے ہیکہ شاہین کسی ایک مقام پر اپنا گھر بناکر  محدود زندگی نہیں گزارتا، اس کی سوچ اتنی اونچی ہوتی ہےکہ کسی ایک گھونسلے میں زندگی گزارنا اپنے لئے عیب سمجھتا ہے،، خدا نے جو اس کو طاقت پرواز  دی ہے  وہ اس کے خلاف سمجھتا ہے۔ اسی لئے ایک مقام پر زندگی گزارنے کے بجائے وہ درویشانہ زندگی کو پسند کرتا ہے۔۔ 

     سہولیات ، آسائشیں،  محلات، اور  نرم خواب گاہیں  ضرور استعمال کریں لیکن وہ ہمارے مؤمنانہ، وزاہدانہ طرز زندگی پر اثر نہ ہونے پاۓ۔    بہرحال علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے، مگر شاہین اور اس کا تصور باقی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہیکہ ہم دنیا کی ہنگامہ خیزیوں میں اپنی تاریخ اور مؤمنہ کردار اور مقصد حیات کو فراموش نہ کریں


       آپ نیچےاپنی رائے کا اظہار کرکے ہماری حصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔۔ یا ہماری غلطیوں کو اجاگر کرکے ہمیں صحیح راہ دکھا سکتے ہیں۔۔۔ ۔ آپ کی حوصلہ افزائی ہمارے لئے مددگاروں ثابت ہوگی ۔۔ 

    

Eagle

              




Post a Comment

0 Comments