بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضللہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ ؛ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ پارہ 2 ۔ آیت 283 ۔
رمضان کا مبارک مہینہ چل رہا ہے ، ہر طرف رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہے۔ گلی، محلوں، چوراہوں، اور مسجدوں میں خوشیوں کا ایک ایسا ماحول ہے۔ جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا، اس خوشی کو دیکھ کر صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔آج رمضان کا آخری جمعہ ہے جس کو جمعۃ الوداع بھی کہتے ہیں ، وقت تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے ، آج 27 واں رمضان ہے، رمضان کے 26 دن گزر گئے مگر اس کا پتہ ہی نہیں چلا، کچھ دن پہلے رمضان کا مہینہ شروع ہوا تھا اب وہی مہینہ ختم ہونے جا رہا ہے، ہماری زندگی کا سفر بڑی تیزی سے چل رہا ہے، یہ مہینہ اس پر بھی گزر رہا ہے جس نے روزے رکھے، اور اس پر بھی گزر رہا ہے جس نے روزے نہیں رکھے، اس مہینے کی راتیں ان پر بھی گزررہی ہے، جنہوں نے تراویح کی نماز پڑھی اور ان پر بھی گزر رہی ہے جنہوں نے تراویح کی نماز نہیں پڑھی، یہ دن ان پر بھی گزر رہے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی تلاوت کی اور ان پر بھی گزر رہے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی تلاوت نہیں کی، اس مہینے کا وقت ان پر بھی گزرا جنہوں نے چاشت اوابین اور تہجد کی نمازیں پڑھی،اور یہ وقت ان پر بھی گزرہ جنہوں نے فرض نماز بھی ادا نہیں کی، وقت تو سب پر گزر رہا ہے مگر کامیاب و ہی انسان ہے جنہوں نے اپنے وقت کو کامیاب بنا لیا، یہ دنیا ہے گزر گئی گزران کیا جھو پڑی کیا محلان، یعنی یہ دنیا سب کی ہی گزر رہی ہے جھونپڑی میں رہنے والا یا محلات میں رہنے والا ہو
عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْضُرُوا فَحَضَرْنَا، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَرَجَةَ قَالَ: " آمِينَ "، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّانِيَةَ قَالَ: " آمِينَ "، فَلَمَّا ارْتَقَى الدَّرَجَةَ الثَّالِثَةَ قَالَ: " آمِينَ "، فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ مِنَ الْمِنْبَرِ قَالَ: فَقُلْنَا له يَا رَسُولَ اللهِ سَمِعْنَا الْيَوْمَ مِنْكَ شَيْئًا مَا كُنَّا نَسْمَعُهُ فَقَالَ: " إِنَّ جِبْرِيلَ عَرْضَ لِي فَقَالَ: بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ فَقُلْتُ: آمِينَ فَلَمَّا رَقِيتُ الثَّانِيَةَ قَالَ: بَعُدَ مَنْ ذُكِرْتَ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْكَ فَقُلْتُ: آمِينَ، فَلَمَّا رَقِيتُ الثَّالِثَةَ قَالَ: بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ اَبَوَيْهِ الْكِبَرَ عِنْدَهُ أَوْ أَحَدُهُمَا، فلَمْ يُدْخِلِ الْجَنَّةَ فَقُلْتُ: آمِينَ " (رواه الحاكم فى المستدرك
کعبؓ بن عجیرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہو جائو ہم لوگ حاضر ہو گئے جب حضورﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین ۔جب دوسرے پر درجہ پر قدم مبارک رکھا توپھر فرمایا آمین۔ جب تیسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا توپھر فرمایا آمین۔ جب آپ ﷺخطبہ سے فارغ ہو کر نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت جبرئیل میرے سامنے آئے تھے، جب میں نے پہلے درجہ پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہوجائے وہ شخص جسنے رمضان کا مبارک مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہیں ہوئی میں نے کہا آمین، پھر جب میں دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو جائے وہ شخص جسکے سامنے آپ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے میں نے کہا آمین، جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے والدین میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہنچ جائے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کر سکیں
تشریح۔ اس حدیث میں حضرت جبرئیل نے تین بد دعائیں دی ہیں، اور حضور اقدسﷺ نے ان تینوں پر آمین فرمایا ۔ اول تو حضرت جبرئیل جیسے مقرب فرشتے کی بد دعا ہی کیا کم تھی اور پھرحضورر اقدس ﷺ کی آمین نے اس کو اور بھی زیادہ سخت بنا دیا، اللہ تعالی اپنے فضل سے ہم لوگوں کوان تینوں بددعا سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں، نمبر (1) وہ شخص کہ جس پر رمضان المبارک گزر جائے اور اس کی بخشش نہ ہو یعنی رمضان المبارک جیسا بابرکت زمانہ بھی غفلت میں، معاصی میں، نافرمانیوں میں، اور گناہوں میں گزار دے،،،۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ آگیا ہے، جو بڑی برکت والا ہے حق تعالی شانہ اس میں تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں، اور اپنی رحمت خاصہ نازل فرماتے ہیں ، خطاؤں کو معاف کرتے ہیں دعا کو قبول کرتے ہیں، تمہارے تنافس کو دیکھتے ہیں، اور ملائکہ پر فخر کرتے ہیں لہذا اللّٰہ کو اپنی نیکی کو دکھاؤ، بد نصیب ہے وہ شخص جو اس مہینے میں بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔۔۔ اس مہینے میں ہمیں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا چاہیے نفلیں پڑھنے میں، قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں، تسبیحات میں، درود و سلام میں، اور صدقات و خیرات میں، لیکن نفل پڑھنا تو دور کی بات ہے، فرض نماز پڑھنا بھی مشکل ہورہا ہے ، تراویح کا نام سنتے ہی سر میں درد ہونے لگتا ہے ، کمر میں درد ہونے لگتا ہے ، پیر کام نہیں کرتے ہیں، گھٹنے بولنے لگتے ہیں، اور نہ جانے کتنی بیماریاں ہو جاتی ہیں، ویسے پورے پورے دن کام کرتے رہیں گے ، گھنٹوں گھنٹوں تک کھڑے رہیں گے، سوشل میڈیا میں کئی کئی گھنٹے برباد کر دینگے ، اس میں کوئی درد نہیں ہوگا اور کوئی بیماری نہیں ہوگی، ایسے ہی غفلت میں زندگی گزارنے والوں کے لئے جبرائیل علیہ السلام نے بد دعا دی ہے کہ ہلاکو برباد ہو جائے ایسا شخص جو رمضان کا مہینہ پانے کے باوجود اپنی مغفرت نہ کروا سکے۔
دوسرا شخص جس کے لئے بد دعا کی گئی وہ ہے جس کے سامنے نبی کریم ﷺ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ پڑھے اسی وجہ سے بعض علماء کے نزدیک جب بھی نبی کریم ﷺ کا ذکر مبارک ہو تو سننے والوں پر درود شریف کا پڑھنا واجب ہے، اس سے بڑھ کر کیا فضیلت ہو گی کہ جو شخص نبی کریم ﷺ پر ایک مرتبہ درود بھیجے حق تعالیٰ شانہ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتے ہیں نیز ملائکہ کا اس کے لئے دعا کرنا ، گناہوں کا معاف ہونا ، درجات کا بلند ہونا ، احد پہاڑ کے برابر ثواب کا ملنا ، شفاعت کا اس کے لئے واجب ہونا ۔ اللہ جل جلا لہ رضآ نصیب ہونا اوربہت سی بشارتیں ہیں جو درود شریف پڑھنے والوں پر احدیث میں وارد ہیں ۔
واقعہ نزھۃ المجالس کہ مصنف نے ایک واقعہ نقل کیا ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میرا ایک پڑوسی تھا، جو انتہائی گنہگار تھا۔ میں ہمیشہ اس کو توبہ کی ترغیب دیتا تھا؛ لیکن وہ نہیں مانتا تھا۔جب اس کا انتقال ہو گیا، تو میں نے اس کو جنّت میں دیکھا میں نے اس سے پوچھا کہ تم جنت میں کیسے پہونچے ؟ اس نے جواب دیا: کہ میں ایک مرتبہ ایک محدّث کی مجلس میں تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ جو بلند آواز سے درود شریف پڑھتا ہے، اس کو جنت ملےگی، تو میں نے بلند آواز سے درود شریف پڑھا اور اس پر مجلس کے دیگر لوگوں نے بھی درود شریف پڑھا، جس کی برکت سے میری کی مغفرت ہو گئی۔ يَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّم دَائِمًا أَبَدًا عَلَى حَبِيبِكَ خَيرِ الْخَلْقِ كُلِّهِمِ
فقہاء نے اس کی تصریح کی ہے کہ ایک مرتبہ عمر بھر میں درود شریف کا پڑھنا عملاً فرض ہے اور اس پر علماء مذہب کا اتفاق ہے البتہ اس میں اختلاف ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کا ذکر مبارک ہو ، ہر مرتبہ درود شریف کا پڑھنا واجب ہے یا نہیں ، بعض علماء کے نزدیک ہر مرتبہ درود شریف کا پڑھنا واجب ہے اور دوسرے بعض کے نزدیک مستحب۔۔۔
تیسرے وہ شخص جس کے بوڑھے والدین میں سے دونوں یا ایک موجود ہوں اور وہ ان کی اس قدر خدمت نہ کر سکے کہ جس کی وجہ سے جنت کا مستحق ہو جائے ۔والدین کے حقوق کو بیان کرتے ہوئے اللّٰہ تعالٰی نے قرآن مجید میں فرمایا، وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَا أَوْ کِلاَھُمَا فَلاَ تَقُل لَّھُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْھَرْھُمَا وَقُل لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْما وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً ۔۔ ترجمہ : اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سواہ کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آو ، اگر وہ یعنی ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں ، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اورا ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو ) ان سے کبھی اف بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے۔۔ ایک روایات میں آیا ہے کہ جنت کے بہترین دروازوں میں سے ایک دروازہ باپ ہے تیرا جی چاہے اس کی حفاظت کر یا ضائع کر دے ۔ایک صحابی ؓ نے حضور ﷺسے دریافت کیا کہ والدین کا کیا حق ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ وہ تیری جنت ہیں یا جہنم یعنی ان کی رضا جنت ہے اور ان کی ناراضگی جہنم ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ مطیع بیٹے کی محبت اور شفقت سے ایک نگاہ والد کی طرف ایک مقبول حج کا ثواب رکھتی ہے ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ شرک کے سوا تمام گناہوں کو جس قدر دل چاہے اللہ معاف فرما دیتے ہیں مگر والدین کی نافرمانی کا مرنے سے قبل دنیا میں بھی وبال پہنچاتے ہیں ۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا کہ میں جہاد میں جانے کا ارادہ کرتا ہوں حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کیا تیری ماں بھی زندہ ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہیں ۔ حضور ﷺنے فرمایا کہ ان کی خدمت کر کہ ان کے قدموں کے نیچے تیرے لئے جنت ہے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کی رضا باپ کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے اور بھی بہت سی روایات میں اس کا اہتمام اور فضل وارد ہوا ہے ۔ جو لوگ کسی غفلت سے اس میں کوتاہی کر چکے ہیں اور اب ان کے والدین موجود نہیں۔ شریعت مطہرہ میں ان کی تلافی بھی موجود ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جس کے والدین اس حالت میں مر گئے ہوں کہ وہ ان کی نافرمانی کرتا ہو تو ان کے لئے کثرت سے دعا اور استغفار کرنے سے مطیع شمار ہوجاتا ہے ۔ ایک دوسری حدیث میں وارد ہے کہ بہترین بھلائی باپ کے بعد اس کے ملنے والوں سے حسن سلوک ہے۔ ماخوذ ، فضائل اعمال"
تھوڑی دیر بیٹھ کر کے اپنی زندگی کا محاسبہ کریں، ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا ،۔ کیا ہم نے اس رمضان میں وہ پایا جو پانا چاہتے تھے، کیا ہمارے دن ایسے گزرے جیسے گزرنے چاہیئے تھے؟، کیا ہماری راتیں ایسی گزری ہیں جیسے گزرنی چاہئے تھی؟، کیا ہم نے اتنی عبادتیں کی جتنی کرنی چاہیئے تھی؟، کیا ہم نے قرآن کریم کی تلاوت اتنی کی جتنی کرنی چاہیئے تھی ؟ کیا ہم نے صدقات و خیرات اتنے کئے جتنے کرنے چاہیئے تھے؟ کیا ہمارے دعائیں ایسی تھی جیسی ہونی چاہیئے تھی ؟ یا پھر ہم نے ایک مرتبہ اور رمضان المبارک کو غفلت میں گزار دیا ، اپنی خواہشات میں، سوشل میڈیا میں، اور دنیا کی بھاگ دوڑ میں ، اب بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ اللہ تعالی کے سامنے رو دھو کر کے اپنے گناہوں کو معاف کروا لیں اور اللہ کی عبادت کر کے اس کا قرب حاصل کر لیں ،
ساری دنیا انٹرنیٹ پر فدا ہو گئی، فجر تا عشاء قضا ہو گئی۔
دولت کے پیچھے بھاگ رہا ہے آج کا مسلمان کل افسوس کرے گا کہ آخرت تباہ ہو گئی،۔
دوسری بات آج رمضان کا آخری جمعہ ہے جس کو جمعۃ الوداع بھی کہتے ہیں ، بعض لوگ جمعۃ الوداع کو تہوار سمجھتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ اس کی خاص فضیلتیں ہیں، اس کی خاص عبادتیں ہیں، اس کے لئے کچھ متعینہ اذکار ہیں، اور کچھ متعینہ درود ہیں، تو شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے ، جمعۃ الوداع نہ کوئی خاص تہوار ہے اور نہ ہی اس کے اندر کوئی خاص عبادتیں ہیں، اتنی بات ضرور ہے کہ رمضان کا ہر جمعہ ایک نعمت ہے،کیونکہ جمعہ تمام دنوں کا سردار ہوتا ہے جمعہ کے دن کی بہت ساری فضیلتیں ہیں، اور رمضان میں ڈبل ڈبل فضیلتیں جمع ہو جاتی ہیں اس اعتبار سے جمعہ کا دن ہمارے لئے ایک بڑی نعمت ہے،
رمضان المبارک کے آخری جمعے کی تیاری اور آخری جمعہ بطور ’’جمعۃ الوداع‘‘ منانا نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور فقہاء کرام سے ثابت نہیں ہے، حضور ﷺ رمضان المبارک کا مکمل آخری عشرہ اعتکاف اور راتوں کو بیدار رہ کر عبادت میں گزارتے تھے۔ پورے عشرے میں عبادت کا اہتمام تو احادیث میں منقول ہے، لیکن آخری جمعے کے لیے نئے کپڑے سلوانا، تیاری کرنا یا خاص عبادت کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ نیز ’’الوداع والفراق والسلام یا شهر رمضان‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے خطبۃ الوداع پڑھنا حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے، نہ ہی اس کی خاص فضیلت ہے، بلکہ اس کو اکابر اہلِ فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے۔
0 Comments
آپ یہاں اپنی رائے کا اظہارکرسکتے ہیں، آپکی کی راۓ ہمارے لئے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آپ کو پوشیدہ رکھا جائے گا 👇👇👇👇