اعتکاف

                   بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

    الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضللہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ ؛ 

      اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ 

     یہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ چل رہا ہے، آج بیسواں واں رمضان ہے ، پہلا عشرہ ختم ہو چکا ہے دوسرا عشرہ بھی ختم ہو چکا ہے اب تیسرا عشرہ چل رہا ہے، اس تیسرے عشرے میں دو قسم کی عبادت بہت ہی اہم ہیں، نمبر ایک شب قدر کی عبادت یعنی طاق راتوں میں عبادتوں کا اہتمام،،  نمبر دو اعتکاف ،

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ۚ﴿ۖ۱﴾ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ؕ﴿۲﴾ لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙخَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ ؕ﴿ؔ۳﴾ تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ ۙ﴿ۛ۴﴾ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ ﴿۵﴾

بے شک ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں اُتارا ہے ﴿۱﴾ اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شبِ قدر کیا ہے ﴿۳﴾ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ﴿۴﴾ اس رات میں فرشتے اور روح القدس (حضرت جبرئیل علیہ السلام) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر خیر لے کر اترتے ہیں (دنیا کی طرف) ﴿۵﴾ وہ شب سراپا سلام ہے۔ وہ شب طلوعِ فجر تک رہتی ہے ﴿۶﴾

   تفسیر

مفسرین حضرات نے اس سورت کا شانِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا حال ذکر کیا، جس نے ایک ہزار مہینے تک جہاد کیا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ سن کر تعجب ہوا اور انہیں اس پر رشک آیا،  اس پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورۃ القدر نازل فرمائی، جو کہ اس امّت کے لئے ایک عظیم نعمت اور تحفہ ہے۔ اس امت کو جو خصوصی نعمت اور فضیلت ملی ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی شخص شبِ قدر میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرےگا، اس کو ہزار مہینوں سے زیادہ عبادت کرنے کا ثواب ملےگا (ایک ہزار مہینہ تیراسی (۸۳) سال کے برابر ہوتا ہے)۔ آگر کوئی شخص ایک رات عبادت کرلیتا ہے تو گویا کہ اس نے تیراسی سال عبادت کی ہے ،

   اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ  ۔ بے شک ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں اُتارا ہے، اس آیتِ کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو شبِ قدر میں اُتارا ہے، مفسرینِ کرام لکھتے ہیں کہ قرآنِ مجید ماہِ رمضان میں لوحِ محفوظ سے پہلے آسمان پر شبِ قدر میں نازل کیا گیا۔ پھر رفتہ رفتہ حسبِ ضرورت تیئس (۲۳) سالوں میں پورا قرآنِ کریم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اُتارا گیا۔ 

وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ؕ﴿۲﴾ لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ ۬ۙخَیۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ ،، اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شبِ قدر کیا ہے ﴿۳﴾ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے،،۔  یہ رات ہمارے لئے ایک عظیم تحفہ اور نعمت ہے؛ لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں خوب محنت و مجاہدہ کرے اور اس رات کی برکات کو حاصل کرے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص انتہائی گنہگار اور خطا کار ہو اور اس نے گناہوں کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو انتہائی ذلیل وخوار کر لیا ہو اس کے لئے بھی سنہرا موقع ہے کہ وہ اس مبارک شب میں اپنے گناہوں سے سچی پکی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں وقت لگا کر اپنے آپ کو اللہ تعا لیٰ کے نزدیک معزز و مکرّم بنا لے۔

  تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوۡحُ فِیۡہَا بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ ۚ مِنۡ کُلِّ اَمۡرٍ ۙ﴿ۛ۴﴾ سَلٰمٌ ۟ۛ ہِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ﴿۵﴾  اس رات میں فرشتے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنے پروردگار کے حکم سے ہر خیر لے کرزمین کی پر اترتے ہیں ﴿۵﴾ یہ شب سراپا سلام ہے۔ وہ شب طلوعِ فجر تک رہتی ہے ،، اس مبارک رات میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تمام فرشتوں کے ساتھ سدرۃ المنتہیٰ سے دنیا میں اُترتے ہیں۔ ہر مسلمان مرد اور عورت کو سلام کرتے ہیں۔ اور ان کیلئے رحمت کی دعا کرتے ہیں ، 

لہذا ہر شخص کو چاہیئے کہ اس مبارک رات میں عبادت میں مشغول رہے اور تمام قسم کے گناہوں سے اجتناب کرے۔ اسی طرح اس کو چاہئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے رو رو کر اپنی مغفرت اور ہدایت کے لیے دُعا کرے۔

     شبِ قدر کون سی رات میں ہوتی ہے؟

  إني اريت ليلة القدر فانسيتها، فالتمسوها في العشر الاواخر في الوتر،، اللہ کے نبی نے فرمایا کہ مجھے یہ رات دکھا دی گئی تھی پھر بھلا دی گئی لہذا اس کو تلاش کرو آخری عشرے کی طاق راتوں میں،

   خَرَجَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لِيُخْبِرَنَا بلَيْلَةِ القَدْرِ فَتَلَاحَى رَجُلَانِ مِنَ المُسْلِمِينَ فَقَالَ: خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بلَيْلَةِ القَدْرِ، فَتَلَاحَى فُلَانٌ وفُلَانٌ، فَرُفِعَتْ وعَسَى أنْ يَكونَ خَيْرًا لَكُمْ، فَالْتَمِسُوهَا في التَّاسِعَةِ، والسَّابِعَةِ، والخَامِسَةِ،، حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شب قدر کے بارے میں بتائیں مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہو رہا تھا، آپ نے فرمایا میں اس لئے آیا تھا تاکہ تمہیں شب قدر کی خبر دوں، مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہو رہا تھا جس کی وجہ سے شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی ہے ، ہو سکتا ہے یہ تمہارے لئے بہتر ہو لہذا تم اس کو تلاش کرو نویں ساتویں اور پانچویں رات میں،،    تفصیل   آپ کو بتایا گیا تھا کہ شبِ قدر فلاں رات میں ہوگی ، آپ لوگوں کو بتانے کے لئے باہر آئے باہر میں دیکھا کہ دو صحابہ کرام آپس میں لڑ رہے ہیں لڑائی کی وجہ سے شب قدر کی تعیین اٹھا لی گئی ،،اس سے پتا چلتا ہے کہ لڑائی جھگڑے میں کتنی نحوست ہے ، لڑائی جھگڑا اتنی بری چیز ہے کہ اس کی وجہ سے شب قدر کی تعین ہمیشہ کے لئے اٹھا لی گئی، اور آپس کی لڑائی دین کو مونڈھنے والی ہے ، جیسے اسطرح سے سر کے بال بالکل صاف ہو جاتے ہیں، ایسے ہی آپس کی لڑائی کی وجہ سے دین صاف ہو جاتا ہے ،، اس لیے لڑائی جھگڑے سے ہمیں ہمیشہ بچنا چاہئے ،، 

            شبِ قدر کی علامت 

       شب قدر ایک معتدل رات ہوتی ہے، نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی۔ اس رات میں کوئی ستارہ شیطان کو نہیں مارا جاتا ۔ نیز جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی شعاعیں نہیں ہوتیں، 

  

      اعتکاف کے فضائل و احکام

   دنیا کے تمام تعلقات سے کٹ کر ایک خاص وقت تک کے لئے عبادت کی نیت اور اللہ کو راضی کرنے کے جذبے کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کہلاتا ہے،۔  اعتکاف کی تین قسمیں ہیں 1۔واجب 2۔ سنّت 3۔مستحب۔  1 واجب وہ اعتکاف ہے جس کے کرنے کی کسی شخص نے نذر مان لی ہو۔ مثلاً یہ کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اعتکاف کروں گا، تو اس کام کے ہونے کے بعد اعتکاف کرنا واجب ہوگا۔  2 اعتکاف کی دوسری قسم سنّت ہے۔ اس کا وقت رمضان کا آخری عشرہ ہے،جوکہ سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ 3 مستحب اعتکاف:اس کے لئے کسی خاص وقت کی تعیین نہیں ہے، آدمی جس وقت بھی مسجد میں داخل ہو اور اعتکاف کی نیت کرلے تو جتنی دیر مسجد میں رہے گا اسے اعتکاف کا ثواب حاصل ہوگا ، 

    اعتکاف ان عبادات میں سے ہے جو پچھلے انبیاءِ کرام علیہم السلام کے زمانے سے چلی آرہی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بھی ان کا ذکر فرمایاہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بیت اللہ کی تعمیر کے بعد طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور نماز ادا کرنے والوں کے لیے اسے (بیت اللہ) پاک صاف رکھنے کا حکم دیا ہے۔ گویا طواف ونماز کی طرح اعتکاف بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کا خاص ذریعہ ہے، 

  اور رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کرنا رسول اللہ ﷺ کی مستقل سنت ہے، اوراس کی فضیلت اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے تھے، امام زہری ؒ فرماتے ہیں : کہ لوگوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ رکھا ہے حال آں کہ رسول اللہ ﷺبعض امور کو انجام دیتے تھے اور ان کو ترک بھی کرتے تھے ،اور جب سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت سے لے کر وفات تک بلا ناغہ آپ اعتکاف کرتے رہے ،کبھی ترک نہیں کیا ۔ (اور اگر ایک سال اعتکاف نہ کرسکے تو اگلے سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔، 

۔ اور معتکف کی مثال ایسے بیان فرمائی گئی ہے گویا کوئی شخص کسی کے در پر آکر پڑجائے کہ جب تک مقصود حاصل نہیں ہوگا اس وقت تک نہیں لوٹوں گا، معتکف اللہ کے در پر آکر پڑجاتاہے کہ جب تک رب کی رضا اور مغفرت کا پروانا نہیں مل جاتا وہ نہیں جائے گا، ایسے میں اللہ کی رضا ومغفرت کی قوی امید بلکہ اس کے فضل سے یقین رکھنا چاہیے۔۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص رمضان المبارک میں دس دنوں کا اعتکاف کرتا ہے اس کو دو حج اور دو عمرہ کے برابر ثواب ملتا ہے ، (المعجم الکبیر) 

   ماہِ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف سنتِ مؤکَّدہ علی الکفایہ ہے، (در مختار) اگر بڑے شہروں کے ہر محلہ میں.. اور چھوٹے دیہات کی ہر بستی میں.. چند افراد یا کم از ایک شخص بھی اعتکاف کرلے تو سب کی طرف سے کافی ہوجائیگا ، اور اگر ایک شخص بھی اعتکاف میں نہ بیٹھے تو سبھی سنت چھوڑنے کے مجرم شمار ہونگے ، 

       سنت اعتکاف کا وقت...

 ‌ مسنون اعتکاف یعنی آخری عشرہ کے اعتکاف کے لئے ضروری ہے کہ بیسویں رمضان کا سورج غروب ہونے (اور وقت اِفطار و اذانِ مغرب) سے پہلے ہی اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہوجائیں ، اور جب عید کا چاند ہوجائے تو اعتکاف پورا ہوجاتا ہے ، چاہے چاند انتیس کا ہو.. یا تیس کا ،

      اعتکاف کے شرائط...

     (1) مسلمان ہونا، (2) عاقل ہونا ، البتہ بالغ ہونا شرط نہیں ہے ، بلکہ ایسا نابالغ جو سمجھدار ہو.. اس کا اعتکاف بھی صحیح ہے، لیکن یہ اس کا نفلی اعتکاف ہوگا ، مسنون نہ ہوگا ، (3) اعتکاف کی نیت کرنا ، (4) مرد کا مسجد میں اعتکاف کرنا ، (5) جَنابَت یعنی غسل واجب ہونے والی حالت سے پاک ہونا، (6) عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا ، (7) روزے سے ہونا ، 

 ‌ اعتکاف کو فاسد.. اور ختم کرنے والی چیزیں..

 (1) اعتکاف کی حالت میں بلا عذرِ شرعی ایک منٹ کے لئے بھی مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے ، ورنہ اعتکاف ٹوٹ جائیگا ، (2) صرف حاجتِ طبعی یعنی پاخانہ، پیشاب ، استنجاء ، وضو وغیرہ اسی طرح اگر غسل فرض ہوجائے تو مسجد سے باہر جا سکتا ہے، اور فارغ ہوتے ہی فوراً مسجد میں داخل ہوجائے ، ایک منٹ کے لئے بھی کہیں نہ رکے ،   

    لیکن ضرورت کے لئے آتے جاتے راستے میں کوئی ضروری اور مختصر بات چیت کرنا جائز ہے ، بشرطیکہ اس کے لئے ٹھہرنا نہ پڑے ، ان حاجات و ضروریات کے لئے بھی ایسی جگہ کا انتخاب کریں جو مسجد سے زیادہ قریب ہو ، (3) غسل فرض کے علاوہ جمعہ کے دن.. یا گرمی کی وجہ سے غسل کے لئے نکلنا جائز نہیں ہے ، (4) اگر اس مسجد میں جمعہ کی نماز نہ ہوتی ہو تو دوسری مسجد جانا شرعی ضرورت میں داخل ہے، نمازِ جمعہ کے لئے اندازہ کر کے اتنا پہلے مسجد سے نکلے کہ جامع مسجد پہونچ کر سنتیں ادا کرنے کے بعد خطبہ سن سکے اور اگر اس سے کچھ پہلے بھی چلا گیا تو بھی اعتکاف میں کچھ خلل نہیں پڑیگا ، (5) اگر اعتکاف کرنے والے کا وضو باقی ہے ، تو تازہ وضو کے لئے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ہے، اگر چلا گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائےگا ، 

     اعتکاف کے دوران جائز کام...

(1) کھانا پینا، لیکن صفائی کا خیال رکھا جائے، (2) سونا، (3) ضرورت کی بات کرنا، (4) اپنا یا دوسرے کا نکاح کرنا، (5) کپڑے بدلنا، (6) خوشبو لگانا، (7) تیل لگانا، (8) اپنے بستر کو بوقت ضرورت چادر یا مچھر دانی سے گھیرنا، (9) مسجد میں ایک جگہ سے دوسری جگہ بدلنا، (10) برتن اس طرح دھونا کہ مسجد آلودہ نہ ہو ، (11) کنگھی کرنا، (12) صابن ، کھانے پینے اور ہاتھ دھونے کے برتن اور مطالعہ کے لئے کتابیں مسجد میں رکھنا، (13) بلا معاوضہ کسی مریض کا معائنہ کرنا، اس کو کوئی نسخہ لکھکر دینا یا کوئی دوا بتا دینا، لیکن اجرت لیکر یہ کام کرنا مکروہ ہے، (14) ضروریاتِ زندگی کے لئے خرید و فروخت کرنا بشرطیکہ سودا مسجد میں نہ لایا جائے، (15) اعتکاف کی حالت میں جس طرح آمنے سامنے کسی سے کوئی ضروری بات چیت کر سکتا ہے ، اسی طرح فون پر بھی ضروری گفتگو کر سکتا ہے ، لیکن بلا ضرورت باتوں سے پرہیز کرے ، 

     اعتکاف کے دوران مکروہ و نامناسب کام...

 (1) بلا ضرورت باتوں میں مشغول رہنا، (2) ضرورت سے زیادہ سامان لا کر مسجد میں پھیلا دینا، (3) مسجد کی بجلی، گیس اور پانی وغیرہ بلا ضرورت استعمال کرنا، (4) مسجد میں بیڑی سگریٹ اور حقہ پینا، اگر کسی کو شدید تقاضا ہو تو استنجاء بیت الخلاء کے لئے جاتے آتے ہوئے راستے میں یہ ضرورت پوری کرلے ، صرف اسی کام کے لئے مسجد سے باہر نہ نکلے، (5) اعتکاف کی حالت میں فحش اور جھوٹے قصے کہانیوں والے مضامین یا تصویر دار اخبارات و رسالے مسجد میں لانا، 

     حالتِ اعتکاف میں ذکر و عبادات کی ترتیب...

(1) قرآن مجید کی تلاوت میں زیادہ تر مشغول رہنا، (2) تیسرا کلمہ زیادہ سے زیادہ پڑھتے رہنا، (تیسرا کلمہ.. سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلاَ اِلٰهُ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَكْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةُ اِلاَّ بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْم) (3) اِستِغفار کی کثرت، (1) اَسْتَغْفِرُ اللّٰه، (2) رَبِّ اغْفِرْلِی، (3) اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ الَّذِی لاَ اِلٰهَ اِلاَّ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَ اَتُوْبُ اِلَیْهِ، ان تینوں استغفار میں سے بسہولت جس کو پڑھ سکے پڑھتا رہے) (4) درود شریف اور آیتِ کریمہ کا وِرد کرتے رہنا (آیتِ کریمہ.. لَا اِلٰهَ اِلّا اَنْتَ سُبْحَانَكَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِین) اور.. سُبْحَانَ اللّٰهِ وَ بِحَمْدِہ سُبْحَانَ الْعَظِیْمُ کی تسبیحات پڑھتے رہنا، (5) تمام نوافل.. مثلاً تہجد، اشراق، چاشت، اوّابین اور صلاۃ التسبیح کا بھی اہتمام کرنا، (6) پڑھنا جانتے ہوں تو دینی کتابوں کا مطالعہ بھی کرسکتے ہیں 

    حالتِ اعتکاف کی کوئی خاص عبادت.. یا اس کی کوئی ترتیب متعین نہیں ہے، سہولت کی خاطر یہ چند اعمال بیان کردیئے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت ذکر و عبادات اور ان نفلی اعمال میں گزارنا چاہیے، 

       عورتوں کا اعتکاف...

    عورتوں کے لئے بھی اعتکاف سنت ہے ، اگر ان کے لئے گھر میں پہلے سے کوئی با پردہ جگہ نماز و عبادات کے لئے متعیّن ہو تو اسی جگہ میں اعتکاف کے لئے بیٹھ جائیں، ورنہ پہلے وہ اپنے گھر میں کوئی ایسی جگہ متعین کریں ، جہاں وہ مکمل پردے کے ساتھ اعتکاف کر سکیں، لیکن حیض و نفاس سے پاک ہونا شرط ہے، اور اگر دورانِ اعتکاف حیض (ناپاکی) شروع ہو جائے تو اعتکاف ٹوٹ جائےگا، پھر پاک ہونے کے بعد صرف اس ایک دن کی قضا ضروری ہے جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے، پورے دس دنوں یا باقی دنوں کی قضا ضروری نہیں، لیکن قضا کے دوران روزہ رکھنا بھی ضروری ہوگا، عورت کے لئے اعتکاف کی حالت میں بچہ کو دودھ پلانا جائز ہے، عورت اسی جگہ کھائے پئے اور سوئے، جس جگہ کو اعتکاف کے لئے متعیّن کیا ہے، صرف وضو اور بیت الخلاء جانے کے لئے باہر آئے، آنے جانے کے دوران گھر کے محرم افراد ، اپنی ماں بہن اور اپنی اولاد وغیرہ سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں، بس خاموشی کے ساتھ اپنی ضرورت پوری کر کے فوراً واپس آ جائے، اعتکاف کی جگہ سے کسی کو اگر کوئی کام بتائے تو یہ جائز ہے،

 


.

Post a Comment

0 Comments