بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضللہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ، وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٰةَ وَأَقۡرِضُواْ ٱللَّهَ قَرۡضًا حَسَنٗاۚ وَمَا تُقَدِّمُواْ لِأَنفُسِكُم مِّنۡ خَيۡرٖ تَجِدُوهُ عِندَ ٱللَّهِ هُوَ خَيۡرٗا وَأَعۡظَمَ أَجۡرٗاۚ سورہ مزمل 20 نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کو اچھا قرض دو اور اپنے لیئے جو بھلائی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے پاس بہتر اور بڑے ثواب میں پاؤ گے،،
رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی انسانوں میں ذہنی،ایمانی اور اعمالی اعتبار سے بہت سی خوش گوار تبدیلیاں واقع ہوتیں ہیں، نہ صرف یہ ، بلکہ ہمارے ارد گرد کے معاشرے میں امن و امان ، باہمی ہمدردی اور اخوت و بھائی چارگی کی ایک عجیب فضا قائم ہوتی ہے، چنانچہ اسی مہینے میں عام طور پر اپنے اموال کی زکاة نکالنے کا دستور ہے، اگرچہ زکاة کی ادائیگی کا براہِ راست رمضان المبارک سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ زکاة کے وجوب اور اس کی ادائیگی کا تعلق اس کے متعین نصاب کا مالک بننے سے ہے، لیکن چونکہ یہ ہمارے معاشرے اور سوسائٹی میں رواج بن چکا ہے کہ رمضان المبارک میں ہی زکوۃ نکالی جائے
زکوۃ ایک ایسی عبادت ہے جس پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے، رسول اللّٰہ صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
بنی الاسلام علیٰ خمس :شھادۃ ان لاّ ا لٰہ الّا اللّٰہ وانّ محمّدا رسول اللّٰہ ،واقام الصّلٰوۃ،وایتاء الزّکوٰۃ،وحجّ البیت ،وصوم رمضان))[رواہ البخاری ومسلم] ترجمہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے :گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ،نماز قائم کرنا ،زکوٰۃ ادا کرنا،بیت اللہ کا حج کرنا،اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔ یہ پانچ چیزیں ہیں جس پر اسلام کی بنیاد رکھی گئی ہے،،
مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنۡدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۲۶۲﴾
ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اگائیں سات بالیں، ہربال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے، وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر دیے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ (انعام) ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔ (پ۳،البقرۃ:۲۶۱،۲۶۲)
وَأَقۡرِضُواْ ٱللَّهَ قَرۡضًا اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کو قرض حسنہ دو اور جو بھی تم اپنے لئے اگے بھیجو گی تم اللہ تعالی کے پاس اس کا بہترین بدلہ پاؤ گے،۔ اللہ تعالی کو قرض حسنہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم میرے غریب اور مسکین بندوں پر اپنا مال خرچ کرو اور ان کی مدد کرو ان کو دینا گویا کہ مجھے دینا ہے ، ان کی خدمت کرنا مجھے خوش کرنا ہے، ان پر رحم کرنا میری رحمت لوٹنا ہے،، حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی ایک انسان کو بلائیں گے اور اس سے کہیں گے کہ میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی، میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا، میں پیاسا تھا تو نے مجھے پانی نہیں پلایا، تو بندہ کہے گا اے میرے پروردگار تو تو ان تمام عیبوں سے پاک ہے ، نہ تجھے بھوک لگتی ہے نہ پیاس لگتی ہے اور نہ ہی کوئی بیماری لگتی ہے، تو میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا کیسے پانی پلاتا اور کیسے میں تیری مدد کرتا ، تو اللہ تعالی کہیں گے میرا فلاں بندہ بیمار تھا، میرا فلاں بندہ بھوکا تھا، میرا فلاں بندہ پیاسا تھا، اگر تو اس کو کھانا کھلاتا اس کو پانی پلاتا اور اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے وہاں پاتا،،،
انفاق فی سبیل اللہ میں بخل کرنے والے اور زکوۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سخت وعید فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبْخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰىہُمُ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ؕ ترجمہ ؛ اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ، ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہوگا۔(پ۴، اٰل عمران:۱۸۰ )
وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ٭یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِی نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ))[التوبۃ:۳۴،۳۵]
’’اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ،انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی ان سے کہا جائے گا یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔‘‘
جن کو اللہ تعالی نے سونا چاندی اور مال و دولت سے نوازا ہے،اور انہونے اس مال کا حق ادا نہیں کیا تو قیامت کے دن اس سونے چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس کی پیشانی کو اس کے پہلو کو اس کے جسم کو داگا جائے گا اور کہا جائے گا یہی وہ مال ہے جس کو تو دنیا میں جمع کرتا تھا،، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان اپنے مال کا حق ادا نہیں کرتا تو وہی مال اس کے لئے ہلاکت و بربادی کا ذریعہ بن جائے گا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں صحیح بخاری کی حدیث ہے جس شخص کو اللہ نے مال دیا اور اس نے اپنے مال کا حق ادا نہیں کیا تو اسی مال کو کل قیامت کے دن گنجا سانپ بنایا جائے گا اور اس کی پیشانی پر دو داغ ہوں گے جو اس کے زہریلے ہونے کی علامت ہوگی پھر وہ اس کو اپنے جبڑے سے پکڑ لے گا اور اس کو ڈسے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں،،
وہ مال جو ہمارے لئے راحت و آسانی کا ذریعہ ہے جو ہمارے لئے خوشی اور مسرت کا ذریعہ ہے جو ہمارے لیے نیکی اور اللہ کے قرب کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، اگر اس مال کا حق ادا نہیں کیا گیا تو وہی مال ہمارے لئے پریشانی اور مصیبت کا ذریعہ بن جائے گا،،
قران کریم میں سورہ قلم میں اللہ تعالی نے ایک واقعے کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، یمن میں ایک شخص تھا اس کا ایک بہت بڑا باغ تھا ، جب باغ میں پھل اتے اور فل پک جاتے اس کا کچھ حصہ نکال کر کے غریبوں میں تقسیم کر دیتا تھا
او مال غریبوں میں تقسیم کرتا رہا اللہ تعالی اس کے باغ میں برکت فرماتے رہے یہاں تک کہ اس آدمی کا انتقال ہو گیا،
باقی ان کے بیٹے بچے جب ان کے باغ کا پھل پک چکے اور ان کو توڑنے کا وقت اگیا تو ان کے بیٹوں نے مشورہ کیا کہ ہمارا باپ پاگل تھا کہ مال کا بہت سارے حصہ غریبوں میں تقسیم کر دیا کرتا تھا لیکن ہم ایسا کریں گے کہ رات کے اندھیرے میں فل توڑنے جائیں گے اور سارا پھل لا کر کے مارکیٹ میں بھیج دیں گے اور اس طریقے سے ہمیں بہت زیادہ نفع ہوگا کیونکہ محنت ہماری ہے تو پیسہ بھی ہمارے ہی ہوگا
تینوں بھائی مشورے کے مطابق رات میں اٹھے اور پھل توڑنے کے ارادے سے باغ کی طرف گئے ، جاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اہستہ سے بات کرو کہیں ہماری اہٹ کسی غریب کو نہ پہنچ جائے کہ وہ بھی ہمارے باغ میں ا جائے
جیسے ہی وہ لوگ باغ کی جگہ پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں پر کوئی باغ باغ نہیں ہے بلکہ وہاں پر ایک چٹیل میدان ہے، فالو کا نام و نشان تک باقی نہیں ہے، دو لوگ اپس میں کہنے لگے ہیں کہ یہ ہمارے باقی جگہ نہیں ہے ہمارا باغ تو ہرا بھرا تھا فل پک چکے تھے ہماری فصل تیار تھی ان میں سے کسی نے کہا کہ یہی ہماری باقی جگہ ہے ہم محروم کر دیے گئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے قران مجید میں بیان کیا ہے جب ہم نے کسی کو نہ دینے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالی نے ہمیں بھی محروم کر دیا جب ہمارا والد خرچ کرتا تھا تو اللہ تعالی ہمارے باغ میں برکت دیتا تھا لیکن جب ہم نے اس کا الٹا کیا تو ہم محروم کر دیے گئے
تو میرے بھائیو ہمارے مال میں صرف ہمارا ہی حق نہیں ہے بلکہ ہمارے مال میں غریبوں کا بھی حق ہے، غریبوں کے حق ادا کرنے کا ایک طریقہ ہے زکوۃ ہم اپنی زکوۃ کے ذریعے سے غریبوں کی مدد کر سکتے ہیں، زکوٰۃ اسلام کا اہم رکن ہے، قرآن کریم میں ایمان کے بعد نماز اور اور زکوٰۃ کا باربار ذکر کیا گیا ہے، زکوٰۃ مال کا وہ حصہ ہے جس کا ادا کرنا فرض ہے اور آج مسلمان زکوٰۃ ادا کرنا ہی نہیں چاہتے، بہت سے مسلمان زکوٰۃ کی فرضیت سے غافل ہیں ، بہت سے لوگ حیلوں اور بہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں جس کی بدولت زکوٰۃ سے بچ جائیں، بعض مسلمانوں کو اللہ کے راستے میں وہ مال خرچ کرنا بھی دشوار ہوتا ہے جو مال ان کا ہے ہی نہیں، فضول اور بے کار کاموں میں پیسے برباد کر کے اپنے آپ کو حاتم طائی سمجھتے ہیں ، ناچ گانوں اور پارٹیوں میں دسیوں ہزار برباد کر کے اور اپنے ایمان و عمل کا خون کر کے اپنے اپ کو بہت بڑا مسلمان سمجھتے ہیں، مگر زکوۃ نہیں نکال سکتے کچھ مسلمان زکوٰۃ ادا کرتے ہیں مگر پورا حساب کتاب کئے بغیر محض اندازے سے یا ذوق کے مطابق کچھ مال زکوٰۃ کے نام سے نکال دیتے ہیں، حالانکہ یہ بھی بڑی کوتاہی ہے ، زکوٰۃ نکالنے کے لئے پہلے پورا حساب کتاب کیا جائے تاکہ زکوٰۃ کی اصل رقم معلوم ہو جائے اور پھر اس کو حقدار تک پہنچا دیا جائے،
ہر قسم کے مال پر زکات واجب نہیں ہوتی، بلکہ صرف ان مالوں میں زکات واجب ہوتی ہے جن میں بڑھنے کی صلاحیت ہو اور یہ پانچ قسم کے اَموال ہیں:
سونا
چاندی
نقدی
مالِ تجارت
مویشی
اور مذکورہ اموال میں بھی مطلقاً زکات واجب نہیں ہوتی، یعنی یہ اموال جتنی مقدار میں بھی ہوں ان پر زکات واجب ہو، ایسا نہیں ہے، بلکہ ان پر زکات واجب ہونے کے لیے مخصوص نصاب ہے، اگر نصاب کے بقدر مال کسی عاقل بالغ مسلمان کی ملکیت میں ہو اور اس پرقمری اعتبار سے سال گزر جائے تو اس پر ڈھائی فیصد مال بطورِ زکات ادا کرنا واجب ہوتاہے۔
زکاۃ کا نصاب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا، اور صرف چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ چاندی، یا صرف نقدی ہو تو بنیادی ضرورت سے زائد اتنی نقدی جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا صرف مالِ تجارت ہو اور اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا مذکورہ چار اموال (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت) میں سے کوئی دو طرح کے مال یا تین یا چاروں موجود ہوں اور ان کی مجموعی مالیت چاندی کے نصاب(ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر بنتی ہو تو ایسے شخص پر سال پورا ہونے پر قابلِ زکات مال کی ڈھائی فیصد زکات ادا کرنا لازم ہے۔۔
زکوة کا نصاب 7.5 تولہ یعنی 87.5 ساڑھے ستاسی گرام سونا اور 52.5 تولہ یعنی 612 گرام چاندی ہے اگر ایک یا دونوں چیزیں مذکورہ مقدار میں آپ کے پاس ہوں یا دونوں چیزیں تھوڑی تھوڑی مقدار میں ہوں جن کی قیمت ۶۱۲/ گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے۔
یا تجارت کا سامان ۶۱۲/ گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے یا نقد روپئے ۶۱۲/ گرام چاندی کی قیمت کے برابر ہو یا سونا، چاندی، تجارت کا سامان، نقد روپئے یہ سب ملاکر ۶۱۲/ گرام چاندی کے برابر ہو جائے تو آپ صاحب نصاب ہیں ایک سال گذر جانے پر ان کی زکوٰة ادا کرنا آپ کے ذمہ لازم ہوگا۔
✅سونے چاندی کے زیورات
✅نقدی یا نقد پذیر دستاویزات
✅مال تجارت
✅بیچ کر نفع کمانے کی نیت سے لیا گیا پلاٹ
✅کاروبار کی نیت سے خریدی گئی تمام چیزیں
✅کمیٹی کی جمع کرائی گئی اقساط
✅دیا گیا قرض جس کی واپسی کی امید ہو
✅انشورنس اور پرائز بانڈ کی اصل رقم
✅ شئیرز
✅زمینی کی پیداوار
✅باہر چرنےوالےجانور
📝 *ان چیزوں پر زکوۃ واجب نہیں*📝
➖ضروریات زندگی
➖رہنے کا مکان
➖واجب الاداء قرضے
➖استعمال کی گاڑیاں
➖ضرورت سے زائد سامان جو تجارت کے لیے نہ ہو
➖پہننے کے کپڑے
➖یوٹیلیٹی بلز
➖ملازمین کی تنخواہیں
💸40 ہزار پر ایک ہزار روپے
40000 ÷ 40=1000
💸80 ہزار پر دو ہزار روپے
80000÷40=2000
💸ایک لاکھ پر ڈھائی ہزارروپے
100000÷40=2500
💸دولاکھ پر پانچ ہزارروپے
200000÷40=5000
💸تین لاکھ پر ساڑھے سات ہزار زکوٰۃ
300000÷40=7500
💸چارلاکھ پر دس ہزار روپے
400000÷40=10000
💸پانچ لاکھ پر ساڑھے بارہ ہزار روپے
500000÷40=12500
💸دس لاکھ پر پچیس ہزارروپے
1000000÷40=25000
💸بیس لاکھ پر پچاس ہزار روپے
2000000÷40=50000
💸تیس لاکھ پر پچھتر ہزارروپے
3000000÷40=75000
💸40 لاکھ پر ایک لاکھ روپے
4000000÷40=100000
💸50 لاکھ پر ایک لاکھ 25 ہزار روپے
5000000÷40=125000
💸ایک کروڑ پ
ر ڈھائی لاکھ روپے
10000000÷40=250000
0 Comments
آپ یہاں اپنی رائے کا اظہارکرسکتے ہیں، آپکی کی راۓ ہمارے لئے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آپ کو پوشیدہ رکھا جائے گا 👇👇👇👇