عید الفطر

             بسْــــــــــــــمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم

      الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضللہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ ؛

    عن انسؓ قال قدم النبی ﷺ المدینۃ ولھم یومان یلعبون فیھما فقال ما ھذان الیومان قالوا کنا نلعب فیھما فی الجاھلیۃ فقال رسول اﷲ ﷺ قد ابدلکم اﷲ بھما خیراً منھما یوم الاضحی و یوم الفطر 

      إن لكل قوم عيدا وهذا عيدنا ۔ 
      ہر قوم کی ہوتی ہے اور آج ہماری عید ہے۔ 

    تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ایک سال کے بعد ایک مرتبہ پھر ہم سب کو عید گاہ میں جمع ہونے اور عید کی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی ،اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے جمع ہونے کو قبول فرمائے ، ہم سب دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی خوشی مسرت امن و سلامتی محبت و پیار کا یہ دن ہماری زندگی میں بار بار مرحمت فرمائیں،، عید الفطر کے اس مبارک موقع پر میں آپ تمام حضرات کی خدمت میں عید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں

     اللہ تعالی نے مسلمانوں کو خوشی اوہرر مسرت کے اظہار کیلئے دو دن عطا کئے ہیں اور دونوں ہی دن  دو بڑی اور اہم عبادت کی تکمیل کے بعد عطا کئے ہیں مسلمانوں نے رمضان المبارک میں روزہ، نماز، تراویح، تلاوت قرآن، ذکر و اذکار درود، زکوۃ و صدقات جیسے بدنی عبادتوں کا اہتمام کیا تو الله تعالٰی نے اس کے بدلے میں عیدالفطر کا انعام دیا۔  اور جب خدا کے انہیں بندوں نے سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرکے ، اور اپنے خون پسینے کی کمائی صرف کرنے کے بعد حج بیت اللہ جیسے اہم فریضے کو ادا کیا  تو اس کے بد لے میں اللہ تعالیٰ نے عیدالاضحی کا انعام دیا ۔   یہ دو خوشی کے مواقع ہیں جو الله تعالٰی کی جانب سے ہمیں عطا کئے گئے ہیں ۔۔۔ اور دونوں ہی خوشی کے مواقع کو عبادت کے ساتھ جوڑ دیا ہے ۔یعنی پہلے عبادت کرنی ہے پھر خوشی کا اظہارِ کرنا ہے ۔۔۔۔۔

     دنیا کی قوموں کا یہ طریقہ ہے، اور آج بھی چل رہا ہے، وہ اپنے تہوار اور  خوشی کے موقع پر لہوو لعب ناچ گانے شراب نوشی، زنا کاری  دھوکہ  دہی اور تفریحات کو پسند کرتے ہیں ، اگلے پچھلے رنج و غم  اور مصائب کو بھول کر  وقتی طور پر  خوشی حاصل کرنے کیلئے منکرات سہارا لیتے ہیں ۔ اور یہی دستور زمانہ جاہلیت میں رائج تھا ۔ جیسا کہ حدیث میں اس کا ذکر ملتا ہے

      عن انسؓ قال قدم النبی ﷺ المدینۃ ولھم یومان یلعبون فیھما فقال ما ھذان الیومان قالوا کنا نلعب فیھما فی الجاھلیۃ فقال رسول اﷲ ﷺ قد ابدلکم اﷲ بھما خیراً منھما یوم الاضحی و یوم الفطر 

      حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور انکے (اہل مدینہ ) کے کھیل کود کے دو دن مقرر تھے تو حضور ﷺ نے فرمایا یہ کیا دن ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ہم ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے حضور ﷺ نے فرمایا تمہیں اللہ تعالیٰ نے ان دو دنوں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن عطا فرمایا ہے ’’ عیدالاضحی اور عیدالفطر ‘‘ ۔ (مشکوٰۃ ج ۱ ص ۱۲۷)

      حضورﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ کے لوگ سال میں دو دن خوشی مناتے تھے، اور ان دو دنوں میں خوب لہوو لعب اور گانو کی مجلسیں لگتیں تھیں ۔ حضورﷺ نے ان سب طریقوں کو ختم کردیا ، اور دو خوشی کے دن عید الفطر اور عیدالاضحی مقرر فرمایا ، اور فرمایا کہ کہ الله کی عبادت کرکے خوشی کا اظہار کریں۔

   آج عید کا دن خوشی اور مسرت کا دن ہے پیار و محبت کا دن ہے ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کرنے کا دن ہے ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارگی اور ہمدردی کرنے کا دن ہے ، غریبو یتیموں اور مسکینوں کو اپنی خوشی میں شامل کرنے کا دن ہے ،  جو لوگ پریشان حال ہے اور معاشی اعتبار سے کمزور ہیں ، اور خوشی کا اظہار کرنے کے لئے ان کے پاس وہ مواقع نہیں ہیں جو ہمارے پاس ہے ، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنی خوشی میں شامل کریں، اللہ کے رسول نے اس کی ترغیب ہی نہیں دی ہے بلکہ اس کو اپنی زندگی میں کر کے بھی دکھایا ہے،۔

   واقعہ   ایک مرتبہ اللہ کے رسول عید کی نماز کے لئے عید گاہ تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں بہت سارے بچے کھیل رہے تھے , نئے نئے کپڑے پہنے ہوئے تھے خوشی کا اظہار کر رہے تھے ، ان کے بچوں میں ایک بچہ سائیڈ میں کھڑا تھا جو غمگین تھا پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا ، جب اللہ کے رسول کی نگاہ اس بچے پر پڑے تو اس کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا کیا بات ہے، آج تو عید کا دن ہے خوشی کا دن ہے لیکن تم غمگین ہو ، بچے نے کہا یا اللہ کے رسول میں حالات سے مجبور ہوں، میرا باپ کا سایہ میرے سر سے اٹھ چکا ہے اور میری ماں کا سایہ بھی میرے اوپر سے اٹھ چکا ہے میں ایک بے سہارا ہوں، یہ سن کر اللہ کے رسول کی انکھ میں انسو اگئے ، اپ نے اس بچے کا ہاتھ پکڑا اور عید گاہ جانے کے بجائے گھر تشریف لے گئے، اور اماں عائشہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس کونہلاو دھلاوب اور پاک صاف کرو  ، اور اپنی لاڈلی بیٹی کے گھر یہ خبر پہنچائی کہ حسن حسین کے کپڑوں میں سے کوئی بہترین کپڑا ہو تو دے دیا جائے تاکہ میں اس کو پہنا ؤ ، چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت حسن کا جوڑا آپ کی خدمت میں بھیجا ، پیغمبر السلام نے اس کو نئے کپڑے کو اسی یتیم بچے کو پہنایا ، اور اس سے فرمایا اے بیٹا کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ میں تمہارا باپ ہوں اور عائشہ تمہاری اماں ہے، نبی علیہ السلام اس بچی کی انگلی پکڑ کر دوبارہ عید گاہ تشریف لے جاتے ہیں،  اور اس طریقے سے ایک بے سہارے کو سہارا مل گیا ، اور اس کو بھی خوشی میں شریک ہونے کا موقع مل گیا  ،،،،۔ آج ہمیں بھی ایسے بے سہاروں کا سہارا بننے کی ضرورت ہے ، بہت سارے غریب اور مسکین ایسے بھی ہوتے ہیں جو لوگوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے صرف وہ اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں،  اور حقیقت میں یہی لوگ غریب لوگ ہیں، لہذا اپنے اس پاس میں اپنے اور اپنے گاؤں محلے میں ایسے لوگوں کو تلاش کیجیے جو حقیقت میں مستحق ہیں،  اور ان کو اپنی خوشی میں شامل کر لیجیے،

 عید کا مبارک دن بھائی چار گی اور پیارو محبت کا پیغام دیتا ہے،  لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ،  کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھے ۔  عید کے دن عید گاہ میں جمع ہوکر عید نماز پڑھنے کا کیو حکم دیا گیا ہے ، نماز تو مسجدوں میں بھی پڑھ سکتے ، گھر میں بھی پڑھ سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود عید گاہ میں جمع ہو کر ایک امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے،  آخر اس کی کیا وجہ ہے؟؟  تا کہ مسلمانوں کے درمیان ، بھائی چارہ اور پیارو محبت قائم رہے ، اتحا دو اتفاق باقی رہے ، اور لڑائی جھگڑ ا ختم ہو جائے ، آج ہم بھی اگلے پچھلے تمام رنج و غم کو بھلا کر ، تمام لڑائی جھگڑے کو بھلا کر،  اور تمام طرح کی باتو کو بھلاکر ، ایک دوسرے کو سلام کرنا ،اور ایک دوسرے گلے ملنا ہے،

    جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ رب العزت فرشتوں کو تمام شہروں کی طرف بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام علاقوں میں، تمام شہروں میں، اور تمام گاؤ میں، محلوں کے راستوں کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آوازسے  پُکارتے ہیں  جس کوجن و انس کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے،  کہ اے امتِ محمدیہ ! اُس ربِ کریم کی بارگاہ کی طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے، اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے،پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں :کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟  وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے معبود اور مالک ! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کو اس کی  پوری مزدوری دے دی جائے، تو اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں  فرشتو   میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزے اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کر دی  ۔۔ 

      پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے  مخاطب ہوتے ہیں اے میرے بندو ! مانگو کیا مانگتے ہو ؟  ہوگا،میری عزت و جلال کی قسم ! آج کے دن اس نماز عید کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کرو گے وہ پورا کروں گا اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا یعنی اس معاملہ میں وہ کروں گا جس میں تمہاری بہتری ہو  ! آج آپ عید گاہ میں ایک ایسے وقت میں جمع ہیں، جب اللہ کی رحمت جوش میں ہے ، اللہ کا کرم جوش میں ہے ، اور جس نے بھی اللہ تعالی کے سامنے ہاتھ اٹھا کر کے مانگ لیا وہ ناکام نہیں،  پھر اللہ تعالی فرماتے ہیں میری عزت کی قسم جب تک تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں پر   پوشی فرماتا رہوں گا، میری عزت و جلال کی قسم ! میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں یعنی مجرموں کے ساتھ رسوا نہ کروں گا، بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت پاکرلوٹ جاؤ ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا  ۔۔ 

                      صدقہ عیدالفطر   

       سب سے اہم کام جو نماز عید سے پہلے کر لینا سنت ہے۔ وہ فطرے کی ادائیگی ہے،  اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، وَعَن ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَمَرَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إلَى الصَّلَاةِ. ترجمہ: اللہ کے رسول نے حکم دیا کہ صدقہ الفطر لوگوں کے نماز پڑھنے جانے سے پہلے نکالا جائے 

  وَعَن ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: "فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، فَمَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ". رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْنُ مَاجَهْ.

  صدقئہ فطر در اصل روزہ میں واقع ہونے والی کوتاہی اور نقص و کمی کی تلافی اور غرباء کو عید الفطر کے موقع پر اپنی خوشی و مسرت میں شریک کرنے کا ذریعہ ہے،   اس لئے اس کو نماز عید سے پہلے پہلے ادا کر دینا چاہئے اگر کسی عذر کی وجہ اس وقت تک ادا نہ ہو پائے تو زندگی میں جب بھی ادا کریں گے ادا ہی ہو گا ۔ قضا نہیں تمام مالک نصاب پر  مرد ہو یا عورت  صدقہ فطرادا کرنا واجب ہے۔ صاحب نصاب اپنی طرف سے اور نابالغ بچوں کی صدقہ فطر نکالے ۔۔۔

      مذہب اسلام اور شریعت اسلامی کا مزاج یہ ہے کہ جب بھی کوئی عید و تہوار اور خوشی و مسرت کا موقع آئے تو صرف امیروں اور مالداروں کے دولت کدہ اور محلوں ہی میں خوشی و مسرت اور فرحت و شادمانی کا چراغ اور قمقمے نہ جلے، بلکہ ضرورت مندوں، غریبوں، محتاجوں اور ناداروں کے غربت کدہ اور جھونپڑیوں میں بھی خوشی و مسرت کی روشنی پہنچے اور قمقمے جلے ۔ اسی لئے شریعت میں ہر ایسے موقعہ پر سماج کے غریب اور محتاج افراد کو یاد رکھنے اور اپنی خوشی میں شریک کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔   بقرعید کے موقع پر بھی قربانی میں ایک تہائی حصہ غریبوں کا حق قرار دیا گیا ہے ۔ ولیمہ کے بارے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس ولیمہ میں سماج کے مالداروں امیر لوگوں کو بلایا جائے اور غریبوں کو نظر انداز کر دیا جائے وہ بدترین ولیمہ ہے ۔  اسی طرح عید کے موقع پر بھی صدقہ عید الفطر اور زکوۃ نکال کر کے غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا دین کا حصہ ہے۔۔ غرض اسلام نے عید الفطر کی خوشی میں غرباء اور مساکین کو شریک کرنے کے لئے اور روزے میں پیش انے والی کمیوں اور کوتاہیوں کی تلافی اور بھر پائی کے لئے صدقئہ فطر کو ہر صاحب نصاب پر لازم قرار دیا ہے ۔ 

    ۔ جو مسلمان اتنا مال دار ہے کہ اس پر زکوۃ واجب ہے یا اس پر زکوۃ واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب اور استعمال کی اشیاء سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں عید الفطر کی صبح صادق کے وقت موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو صدقۂ فطر کہتے ہیں

جس طرح مال دار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اسی طرح اگر عورت مال دار صاحب نصاب ہے یا اس کی ملکیت میں قرضہ اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال وغیرہ ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، مثلاً اس کے پاس زیور ہے جو والدین کی طرف سے ملا ہے یا شوہر نے نصاب کے برابر زیور عورت کو بطور ملکیت دیا ہے، یا مہر میں اتنا زیور ملا جو نصاب کے برابر ہے تو عورت کو بھی اپنی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے، ہاں اگرشوہر اس کی طرف سے اسے بتاکر ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔ اور گھر کا مالک اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے نکالے گا ، یہاں تک کہ اگر کوئی بچہ عید کے دن صبح صادق سے پہلے پیدا ہو گیا تو اس کی جانب سے بھی صدقہ عید الفطر نکالا جائے گا، 

  عَن ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: "فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ". رَوَاهُ الْجَمَاعَةُ.

         

      

            عیدالفطر کے مسنون اعمال

    1   غسل کرنا  :   عید الفطر ، عید الاضحیٰ اور  جمعہ کے دن  نماز  سے سے پہلے غسل کرنا سنت ہے، اس لئے کہ اصل مقصود جسم سے پسینہ وغیرہ کی بدبو کا ختم ہونا ہے؛ تاکہ مسجد میں پسینہ کی بدبو نہ ہو اور مسلمانوں اور فرشتوں کو تکلیف نہ ہو، لہذا عیدین اور جمعہ کے دن نماز سے پہلے غسل کرنا بہتر ہے۔ اور اگر  کوئی شخص  عیدین کی رات کو  یا فجر کی نماز سے پہلے بھی غسل کرلے تو  بھی سنت ادا ہوجائے گی۔

   2   مسواک کرنا :  عید کے دن مسواک کرنا سنت ہے۔  کیونکہ عید کا دن اجتماع کا دن ہوتا ہے، اور ایسی جگہوں میں منہ کی صفائی ضروری ہے تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔ 

     3  اچھے کپڑے پہننا   :   عید کے دن صاف ستھرے کپڑے پہننا سنت ہے ۔  اپنے پاس جو بھی اچھے کپڑے ہوں وہ پہننا  چاہے نئے ہو یا پرانے ۔۔۔ 

   4    خوشبو لگانا  : عید کے دن خوشبو لگانا سنت ہے۔ اپنی حیثیت کے مطابق جو بھی خوشبو ہو لگائیں  ۔۔۔ 

  5   نماز کیلئے جلد جانا  :  عید کے دن نماز کیلئے جلد جانا یہ بھی سنت ہے 

  6   عید گاہ پیدل جانا :   عید کے دن عید گاہ کیلئے پیدل جانا سنت ہے۔ گاڑے سے جانے میں گناہ نہیں ہے مگر وہ ثواب حاصل نہیں ہوگا  ۔۔۔ 

  7   راستے میں تکبیر کہنا  : عید کے دن عید گاہ جاتے ہوئے تکبیر کہنا سنت ہے۔ نبی کریم ﷺ  عید الفطر کے دن عیدگاہ کیلئے جاتے تو تکبیر کہتے ہوئے جاتے یہاں تک کہ عیدگاہ پہونچ جاتے ۔ الله اکبر، الله اکبر،لا الہ الا الله والله اکبر، الله اکبر، وللہ الحمد  ۔۔۔ 

  8   آمدورفت کا راستہ بدلنا :  ایک راستہ سے جانا اور دوسرے راستہ آنا یہ بھی سنت ہے نبی کریم ﷺ کا ایسا ہی معمول تھا۔

          تفریح کے نام پر منکرات

     اس میں کوئی شک نہیں کہ عید کا دن خوشی اور مسرت کا دن ہے اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جو آپ چاہیں وہ کریں ۔       جن میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں، جیسے مرد اور عورت کا گلے ملنا، سنیما گھروں میں جاکر فلمیں دیکھنا،  عورتوں کا بے پردہ گھومنا، شراب نوشی اور گانوں سے لطف اندوز ہونا، اور بہت ساری ایسی برایاں ہیں جو ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں  ۔ ہمیں ان تمام طرح کی برایوں سے بچنا چاہئے۔۔ ۔ 

      الله تعالٰی سے دعا ہیکہ الله تعالٰی ہم سب عید کی خوشی شریعت کے مطابق منانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے

           

         آپ نیچےاپنی رائے کا اظہار کرکے ہماری حصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔۔ یا ہماری غلطیوں کو اجاگر کرکے ہمیں صحیح راہ دکھا سکتے  ہیں۔۔۔ ۔

        

            

عید الفطر

  


Post a Comment

0 Comments